يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ
اے ایمان والو ! اللہ اور رسول کے ساتھ خیانت (21) نہ کرو، اور جانتے ہوئے تمہارے پاس موجود امانتوں میں خیانت نہ کرو
(21) اس آیت کے شان نزول میں کئی اقوال ہیں، لیکن سند کے اعتبار سے زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ یہ آیت ابو لبا بہ بن عبد المنذر کے بارے میں نازل ہوئی تھی جن سے قریظہ کے یہودیوں نے مشورہ کیا تھا کہ وہ سعد رضی اللہ کو ثالث کی حیثیت سے قبول کرلیں، تو انہوں نے اپنی گردن کی طرف اشارہ کر کے کہا وہ تمہیں ذبح کروادیں گے ابو لبا بہ کہتے ہیں کہ ابھی میرے قدم ہلے بھی نہیں تھے کہ میں نے جان لیا کہ مجھ سے اللہ اور رسول کے حق میں خیانت ہوگئی ہے۔ ان کا قصہ مشہو رہے کہ پھر انہوں نے اپنے آپ کو مسجد نبوی کے ستون سے باندھ دیا اور جب اللہ نے ان کی توبہ قبول کرلی تو رسول اللہ (ﷺ) نے اپنے ہاتھ سے انہیں کھول دیا، اسے عبدالرزاق نے مصنف میں اور سعید بن منصور نے اپنی کتاب السنن میں روایت کی ہے ۔ آیت میں لفظ خیانت تمام چھوٹے اور بڑے گنا ہوں کو شامل ہے، فرائض میں سستی اللہ کے حدود سے تجاوز کرنا، رسول اللہ (ﷺ) کی سنت کا انکار اور مسلمانوں کا راز کافروں کو بتا نا یہ اور اسی طرح کے دوسرے سبھی گناہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خیانت میں داخل ہیں، امانتوں میں خیانت یہ ہے کہ کوئی آدمی مال غنیمت میں سے کچھ چوری کرلے یا اگر کسی مسلمان نے اپنے مال اہل وعیال اور اپنے رازوں کا اس کو امانت دار بنایا ہے تو اس میں خیانت کرے اس کا مال ہڑپ جائے یا اس کی بیوی پر نگاہ بد ڈالے اسے برائی پر ورغلائے یا اس کے رازوں کو طشت ازبام کرے اور لوگوں میں بیان کرتا پھرے۔