إِن تَسْتَفْتِحُوا فَقَدْ جَاءَكُمُ الْفَتْحُ ۖ وَإِن تَنتَهُوا فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَإِن تَعُودُوا نَعُدْ وَلَن تُغْنِيَ عَنكُمْ فِئَتُكُمْ شَيْئًا وَلَوْ كَثُرَتْ وَأَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ
(اے کفار قریش !) اگر تم (دونوں میں سے ایک جماعت کے لیے) فتح چاہتے تھے، تو (لو دیکھو) فتح تمہارے سامنے آگئی، اور اگر تم اپنی سرکشی سے باز آجاؤ گے، تو اسی میں تمہارے لیے بہتری ہوگی، اور اگر تم دوبارہ مسلمانوں سے جنگ (13) کروگے تو ہم دوبارہ ان کی مدد کریں گے، اور تمہارا جتھہ تمہیں کچھ بھی کام نہ آئے گا، چاہے ان کی تعداد زیادہ ہی کیوں نہ ہو، اور بے شک اللہ مومنوں کے ساتھ ہوتا ہے
(13) امام احمد نسائی اور حاکم وغیر ہم نے عبد اللہ بن ثعلبہ سے روایت کی ہے کہ ابو جہل نے میدان بدر میں کہا کہ اے اللہ ! ہم میں جو رحم کو کا ٹنے والا اور ایسی بات لانے والا ہے جسے لوگ نہیں جانتے اسے تو آج کے دن ہلا کر دے تو اللہ تعالیٰ نے اس کی دعا سن لی اور اسے اور اس کی فوج کو ہلاک کردیا، اس لیے کہ اس نے رسول اللہ (ﷺ) اور مکہ کے دیگر مسلما نوں کے ساتھ صلہ رحمی کا بر تاؤ نہیں کیا تھا اور اسی نے اللہ کو چھوڑ کر بتوں کی پرستش کی تھی، دین ابرا ہیمی میں ایک نئی بات تھی، اس آیت میں ابو جہل کی اس دعا کی طرف اللہ نے اشارہ کیا ہے تم نے فیصلہ کن بات کی دعا کی تھی تو لو اللہ کا فیصلہ آگیا۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ اگر تم کفر وشرک اور رسول اللہ (ﷺ) کی دشمنی سے باز آجاؤ گے تو یہ تمہارے لیے بہتر ہوگا۔ اور اگر تم ان سے دوبارہ جنگ کروگے تو ہم دوبارہ ان کی مدد کریں گے اور تمہاری کثرت تمہیں کوئی کام نہ آئے گی، اس لیے کہ اللہ مؤمنوں کے ساتھ ہے۔