فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ قَتَلَهُمْ ۚ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ رَمَىٰ ۚ وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلَاءً حَسَنًا ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
پس تم لوگوں نے انہیں قتل نہیں کیا، بلکہ اللہ نے انہیں قتل کیا (اور اے میرے رسول !) آپ نے ان کی طرف مٹی نہیں پھینکی (11) بلکہ اللہ نے پھینکی تھی اور تاکہ اللہ مومنوں کو اپنی طرف سے اچھا انعام دے، بے شک اللہ خوب سننے والا، خوب جاننے والا ہے
(11) غزوہ بدر میں مسلمانوں کو ان کی قلت وبے سرومانی کی باوجود اس لیے فتح حاصل ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعہ ان کی مدد کی اور ان کے دلوں کو مضبوط کیا اور کافروں کو ذلیل ورسوا کیا اور ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔ جب نبی کریم (ﷺ) نے دعا کی دعا کرنے کے بعد خیمہ سے نکل کر مٹھی بھر مٹی لے کر مشرکین کی طرف پھینکا ، تو اسے انکے چہروں تک اللہ تعالی نے پہنچایا، اس لئے ایک مٹھی مٹی ایک بڑے لشکر کی آنکھوں تک انسانی طاقت کے ذریعہ نہیں پہنچ سکتی تھی، وہ اللہ تعالیٰ کی ذات تھی، جس کی قدرت کی یہ کاریگری تھی محمد بن اسحاق وغیرہ نے روایت کی ہے کہ بدر کے دن نبی کریم (ﷺ) نے ایک مٹھی مٹی لے کر مشر کین کی طرف پھینکا اور کہا کہ برے ہوں ان کافروں کے چہرے تو اللہ کی قدرت سے وہ کافروں کی آنکھوں اور ناکوں تک پہنچ گئی اس کے بعد آپ نے صحابہ کرام کو حملہ کرنے کا حکم دیا، اور اللہ کی تو فیق سے کافروں کو شکست ہوئی محمد بن اسحاق نے عروہ بن الزبیر سے کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں پر جو احسان کیا تھا، اسے ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ کس طرح اس نے دشمنوں کی کثرت اور مسلمانوں کی قلت کے باوجود مسلمانوں کو کا میابی دی تاکہ مسلما نوں کے دلوں میں یہ بات اچھی طرح بیٹھ جائے کہ فتح ونصرت کثرت عدد سے نہیں ملتی بلکہ اللہ جسے چاہتا ہے غلبہ عطا کرتا ہے۔