يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبَارَ
اے ایمان والو ! جب تم میدانِ کارزار میں کافروں کے مقابلہ میں آجاؤ، تو ان کی طرف پیٹھ کر کے نہ بھاگو (10)
(10) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے میدان جہاد کا ایک بہت ہی اہم حکم بیان کیا ہے کہ مسلمان جب کافروں سے برسر پیکار ہوں تو میدان چھوڑ کربھاگ کھڑا ہونا حرام ہے، جو شخص ایسا کرے گا وہ اللہ کے غضب کا مستحق ہوگا اور جہنم اس کا ٹھکا نا ہوگا، اس لیے کہ کبھی ایک سپاہی کی بزدلی پوری فوج کی شکست کا سبب بن جاتی ہے، صحابہ کی ایک جماعت نے فرار کی اس حرمت کو غزوہ بدر کے ساتھ خاص بتایا ہے، یعنی اہل بدر کے لیے میدان چھوڑ کر بھاگنے کی کوئی گنجائش نہیں تھی لیکن جمہور علماء کی رائے یہ ہے کہ یہ حکم عام ہے اور میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہونا ہر حال اور ہر زمانہ میں حرام ہے، اس رائے کی تا ئید صحیحین کی اس روایت سے ہوتی ہے جسے ابو ہریرہ نے روایت کی ہے نبی (ﷺ) نے فرمایا کہ سات کبیرہ گناہوں سے بچو اور ان میں سے ایک میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہونے کو بھی بتایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی صرف ایک صورت کو جا ئز بتایا ہے، وہ یہ ہے کہ سپاہی دوسرے اہم دستہ کی مدد کرنا چاہتا ہو، یا اس کی مدد لینا چاہتا ہو، یا دشمن کو دھوکہ دینے کے لیے ایسا کر رہا ہو تاکہ اچانک پلٹ کر اس پر حملہ کردے علماء نے لکھا ہے کہ فرار کی یہ حرمت اس شرط کے ساتھ خاص ہے کہ دشمنوں کی تعداد ایک مسلمان کے مقابلہ میں دو سے زیادہ نہ ہو اگر دو سے زیادہ ہوگی تو فرار حرام نہیں ہوگا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسی سورت کی آیت (66) میں فرمایا ہے کہ اب اللہ نے تمہارا بوجھ ہلکا کردیا، وہ خوب جانتا ہے کہ تم میں ناتوانی ہے پس اگر تم میں سے ایک سو صبر کرنے والے ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب رہیں گے اور اگر تم ایک ہزار ہوں گے تو وہ اللہ کے حکم سے دوہزار پر غالب رہیں گے، یعنی دو کے مقابلہ میں ایک کا بھاگنا حرام ہے اور اگر دشمن کا تناسب اس سے زیادہ ہوگا تو حرمت ساقط ہوجائے گی۔