وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ۚ وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُم مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِندَ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
اور نماز قائم کرو، اور زکاۃ دو اور جو بھلائی بھی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے، اسے اللہ کے پاس پاؤ گے، اللہ تمہارے کاموں کو خوب دیکھ رہا ہے
لیکن اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں کو عفو و درگذر اور تحمل سے کام لینے، نماز قائم کرنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیا، یہاں تک کہ اللہ کا کوئی اور حکم ان کے بارے میں آجائے، چنانچہ جہاد کا حکم نازل ہوا، تو بہت سے یہود قتل کیے گئے، بہت سے غلام بنائے گئے، اور بہت سے جلا وطن کردئیے گئے۔ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ عفو و درگذر کرنے کا حکم قتال والی آیتوں سے منسوخ ہوگیا، انہی میں سے ایک آیت یہ ہے، قاتِلُوا الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَلا بِالْيَوْمِ الْآخِرِĬ، الآیۃ، مسلمانو ! ان لوگوں سے قتال کرو جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں۔ التوبہ، 29۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ حیی بن اخطب اور اس کے بھائی ابویاسر بن اخطب نے عربوں سے شدید دشمنی اس لیے شروع کردی تھی کہ اللہ نے اپنا آخری نبی عربوں میں کیوں مبعوث کردیا، یہ دونوں یہودی لوگوں کو اسلام قبول کرنے سے شدت کے ساتھ روکتے تھے، یہ آیت انہی کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔