كَمَا أَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِن بَيْتِكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ فَرِيقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ لَكَارِهُونَ
(جس طرح تقسیم غنائم کا معاملہ اللہ اور رسول کے حوالے کردینا ہی بہتر رہا، اگرچہ بعض مسلمانوں نے اس میں اختلاف کیا تھا) اسی طرح آپ کے رب نے آپ کو اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کے پیش نظر آپ کے گھر سے نکالا (3) اگرچہ مسلمانوں کی ایک جماعت اسے بار گراں سمجھ رہی تھی
(3) یہ اور اس کے بعد آنے والی آیتیں جن کا تعلق غزوہ بدر سے ہے، انہیں اچھی طرح سمجھنے کے لیے اس غزوہ کا پس منظر معلوم ہونا ضروری ہے نبی (ﷺ) اور صحابہ کرام پر جب قریش نے عرصہ حیات تنگ کردیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ہجرت کا حکم دے دیا، اور مسلمان مشکل ترین حالات کے پیش نظر اور کفار مکہ کے خوف سے اپنا سب کچھ چھوڑ کر مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے، اور کفار مکہ نے مہاجرین کے مال ودولت پر قبضہ کرلیا۔ 2 ھ میں رسول اللہ (ﷺ) کو معلوم ہوا کہ قریش کا ایک تجارتی قافلہ مال ودولت سے بھرپور ابو سفیان کی قیادت میں شام سے مکہ کی طرف جا رہا ہے آپ نے صحابہ کرام کو جمع کیا اور کہا کہ ہمیں ان کا پیچھا کرنا چایئے اور اس تعاقب سے مقصود کفار قریش کو ذہنی طور پر زک پہنچا نا اور انہیں یہ باور کرانا تھا کہ مسلمان اب کفرو شرک کا قلع قمع کرنے کے لیے تیار ہوچکے ہیں اس کے ساتھ ہی یہ بھی مقصد تھا کہ جس طرح کفار قریش نے مسلمانوں کی دولت اورمال وجائداد پر ہجرت کے وقت قبضہ کرلیا اب وقت آگیا ہے کہ ہم ان کا مال اپنے مال کے عوض چھین لیں، چنانچہ رسول اللہ (ﷺ) تین سواور کچھ صحابہ کرام کو لے کر سمندر کے کنارے کنارے بدر کے طرف روانہ ہوئے جو شام سے مکہ جانے کا راستہ تھا۔ ابو سفیان کو معلوم ہوگیا کہ نبی کریم (ﷺ) قافلہ کا پیچھا کر رہے ہیں، ابو سفیان نے فوراضمضم بن عمرو کو مکہ روانہ کیا تاکہ اہل مکہ کو اس کی خبر دے، اہل مکہ فوراہی تقریبا ایک ہزار کا لشکر لے کر قافلہ کے حفاظت اور مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے روانہ ہوگئے ابو سفیان قافلہ لے کر دائیں طرف ساحل سمندر کی طرف نکل گئے اور قریش کا لشکر مقام بدر میں پہنچ گیا، اور اللہ تعالیٰ نے بغیر سابقہ میعاد کے مسلمانوں اور کافروں کو ایک دوسرے کے مقا بلہ میں لاکھڑا کیا تاکہ حق و باطل کا فیصلہ ہوجائے اور مسلمانوں کو اللہ ان کے اولین جانی دشمنوں پر غلبہ عطا فرمائے، اسلام کی یہ پہلی جنگ 17 رمضان المبارک بروز جمعہ لڑی گئی تھی، اللہ تعالیٰ نے کافروں کو شکست فاش دی (ستر (70) سے زیا دہ کفار ماے گئے، اور تقریبا اتنے ہی قید کرلیے گئے ،۔ حافظ ابن مردویہ نے ابو ایوب انصاری (رض) سے روایت کی ہے کہ جب صحابہ کرام قافلہ قریش کا پیچھا کرتے ہوئے ایک یا دو دن کا راستہ طے کرلیا تو نبی (ﷺ) نے لوگوں سے کہا کہ ممکن ہے تمہیں کفار قریش سے جنگ کرنی پڑے تو صحابہ نے کہا کہ دشمن سے مقابلہ کی ہمارے اندر طاقت نہیں ہے ( اس لیے ہم جنگ کی تیاری کرکے نہیں نکلے ہیں) ہمارا ارادہ تو صرف قافلہ والوں سے نمٹنا تھا، نبی کریم (ﷺ) نے دوبارہ دہرا یا، اور صحابہ نے پہلاہی جیسا جواب دیا تو مقد داد بن عمرو نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! ہم آپ کو ویسا جواب نہیں دیں گے جیسا قوم موسیٰ نے دیا تھا ابو ایوب انصاری کہتے ہیں کہ جب انصار نے مقداد کی یہ بات سنی تو ان میں سے ہر شخص نے تمنا کی کہ کاش ہم نے یہ بات کہی ہوتی، اسی پس منظر کو بیان کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی آیت (5) نازل فرمائی۔ اس پس منظر کو سمجھ لینے کے بعد اس آیت کا صحیح مفہوم سمجھنا آسان ہوگیا، جس کی تعیین میں (آیت کی ابتدا میں حرف کاف آنے کی وجہ سے) ائمہ تفسیر کے کئی اقوال آئے ہیں، آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح تم لوگوں نے امول غنیمت کی تقسیم میں اختلاف کیا، اور کچھ اخلاقی پستی کا مظاہرہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے رسول کے حوالہ کردیا اور انہوں نے عدل وانصاف کے ساتھ تقسیم کیا، اور بالآ خر پتہ چلا کہ مسلمانوں کی مصلحت اسی میں تھی، اسی طرح اللہ نے اپنے رسول کو ان کے گھر یعنی مدینہ سے اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کی خاطر نکالا، جسے اللہ ہی جانتا تھا، حالانکہ مسلمانوں کی ایک جماعت پر یہ بات بہت ہی گراں گذری، کہ نکلے تھے قافلہ سے نمٹنے کے لیے اور اب ان سے لشکر قریش سے جنگ کرنے کے لیے کہا جارہا ہے چنانچہ جنگ ہوئی اور اللہ نے مسلمانوں کو فتح ونصرت اور مال غنیمت سب کچھ سے نوازا۔