سورة الاعراف - آیت 203

وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِم بِآيَةٍ قَالُوا لَوْلَا اجْتَبَيْتَهَا ۚ قُلْ إِنَّمَا أَتَّبِعُ مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ مِن رَّبِّي ۚ هَٰذَا بَصَائِرُ مِن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور جب آپ ان کی مانگ کے مطابق کوئی نشانی (132) نہیں لاتے ہیں تو وہ (بطور استہزاء) کہتے ہیں کہ اسے تم نے خود کیوں نہیں گھڑ لیا، آپ کہئے کہ میں تو اسی کی پیروی کرتا ہوں جو میرے رب کی طرف سے بطور وحی مجھ پر نازل ہوتا ہے، یہ قرآن آپ کے رب کی جانب سے بصیرتوں کا خزانہ ہے، اور ایمان والوں کے لیے ہدایت اور رحمت کا ذریعہ ہے

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(132) مشرکین کی بہت ساری گمراہیوں میں سے ایک گمراہی یہ بھی تھی کہ وہ وقتافوقتا رسول اللہ (ﷺ) سے مخصوص نشانیوں کے مطالبہ کرتے اور مقصود رسول اللہ (ﷺ) کو پر یشان کرنا اور ان کا مذاق اڑانا ہوتا تھا ورنہ سب سے عظیم معجزہ قرآن کریم تو رات دن ان کے سامنے اتر تا ہی رہتا تھا، اور اس کی آیتیں اہل ایمان کی آنکھیں کھو لنے کے لے کافی تھیں جب مشرکین کسی نشانی کا مطالبہ کرتے اور رسول اللہ (ﷺ) ان کے سامنے پیش نہیں کرتے تو بطور استہزاء کہتے کہ تم اسے اپنی طرف سے گھڑ کیوں نہیں لیتے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے آپ سے فرمایا آپ کہہ دیجئے کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں میں اللہ پر افترپردازی نہیں کرتا مجھے تو بذریعہ وحی جو کچھ بتایا جاتا ہے اس کی اتباع کرتا ہوں اور یہ قرآن عظیم تو دل کی آنکھوں کو کھولتا ہے، اور اسے بصیرت عطاکر تا ہے اور بھلائی کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور عذاب نار سے بچنے کے لیے اللہ کی رحمت ہے۔ علمائے تفسیر لکھتے ہیں یہ آیت دلیل ہے کہ نبی (ﷺ) کا ہر قول وفعل وحی الہی کے مطابق ہوتا تھا اور جب تک اللہ کی طرف سے حکم نہ مل جاتا آپ اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں کرتے تھے۔