سورة الاعراف - آیت 163

وَاسْأَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ إِذْ يَعْدُونَ فِي السَّبْتِ إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَيَوْمَ لَا يَسْبِتُونَ ۙ لَا تَأْتِيهِمْ ۚ كَذَٰلِكَ نَبْلُوهُم بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور آپ ان سے اس بستی (98) کا حال پوچھئے جو سمندر کے کنارے واقع تھی، جب اس بستی کے رہنے والے ہفتہ کے دن کے بارے میں اللہ کے حدود سے تجاوز کرتے تھے، جب مچھلیاں ہفتہ کے دن اپنا سر نکالے ان کے پاس آجاتی تھیں، اور جب ہفتہ کا دن نہیں ہوتا تو مچھلیاں ان کے پاس نہیں آتی تھیں، ہم نے ایسا اس لیے کیا تاکہ ان کے گناہوں کی وجہ سے انہیں آزمائشوں میں ڈالیں

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(98) یہاں ان کی ایک تیسری نافرمانی اور اخلاقی ودینی پستی کو بیان کیا گیا ہے جس کا ذکر سورۃ بقرہ کی آیت (65) میں آچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ساحل بحر قلزم پر واقع ایک یہودی بستی والوں کے لیے سینچر کے دن مچھلی کا شکار حرام کردیا تھا، اور ان کی آزمائش کے لیے اللہ کے حکم سے سنیچر کے دن مچھلیاں خوب آتی تھیں اور سطح سمندر پر تیر نے لگتی تھیں اور دوسرے دنوں میں مچھلیاں غائب ہوجاتی تھیں، وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے اس آزمائش میں پورے نہیں اترے اور ایسا طریقہ اختیار کیا کہ سنیچر کے دن مچھلیاں پانی کی طرف واپس نہ جا سکیں گی، تاکہ اتوار کے دن ان کا شکار کرلیں اللہ تعالیٰ نے انہیں اس آزمائش میں ان کے سابقہ گناہوں کی وجہ سے ڈالا تھا، تاکہ ان کی سرکشی کھل کرسا منے آجائے ، اور عذاب کے مستحق بن جائیں۔