وَإِذْ قِيلَ لَهُمُ اسْكُنُوا هَٰذِهِ الْقَرْيَةَ وَكُلُوا مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ وَقُولُوا حِطَّةٌ وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطِيئَاتِكُمْ ۚ سَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ
اور جب ان سے کہا گیا کہ تم لوگ اس بستی میں سکونت اختیار کرلو، اور جہاں سے چاہو اس میں پیدا ہونے والی چیزوں کو کھاؤ اور کہو کہ ہمارے گناہ معاف (97) ہوں، اور دروازہ میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہونا، تو ہم تمہارے گناہ معاف کردیں گے، ہم نیک عمل کرنے والوں کو مزید دیتے ہیں
(97) بنی اسرائیل کی اخلاقی حالت اتنی پست ہوچکی تھی کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے مذکورہ بالاتمام احسانات کو فراموش کردیا، اور سرکشی اور نافرمانی ان کا شیوہ بن گئی اور اللہ کے احکام کا مذاق اڑا نا ان کی فطرت ثانیہ بن گئی، جب بھی اللہ انہیں حکم دیتا اس کی نافرمانی کرتے اور اس کے ساتھ حقارت آمیز معاملہ کرتے، ان دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے ان کی اس قسم کی ایک دوسری اخلاقی اور دینی گراوٹ کو بیان کیا ہے، اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ وہ بیت المقدس میں " حطۃ "کہتے ہوئے داخل ہوں یعنی اے اللہ ہمارے گناہ معاف کردے، لیکن انہوں نے اللہ کے حکم کی مخالفت کی اور اپنے سرینوں کی طرف سے داخل ہوئے اور حطۃ کے بجائے "حنطۃ کہا، جس کے پاداش میں اللہ تعالیٰ انہیں طاعون کی بیماری میں مبتلا کردیا اور ہزاروں کی تعداد میں ہلاک ہوگئے، یہ مضمون سورۃ بقرہ آیات (58/59) میں بیان کیا جا چکا ہے۔