وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُوا يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا ۖ وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنَىٰ عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ بِمَا صَبَرُوا ۖ وَدَمَّرْنَا مَا كَانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهُ وَمَا كَانُوا يَعْرِشُونَ
اور ہم نے ان لوگوں کو جنہیں دنیا کمز و ناتواں سمجھتی تھی، اس زمین کے مشرق و مغرب کا مالک بنا دیا جسے ہم نے بابرکت بنایا تھا، اور بنی اسرائیل سے آپ کے رب کا اچھا وعدہ، فرعونیوں کے ظلم پر ان کے صبر کرنے کی وجہ سے پورا ہوا، اور فرعون اور اس کی قوم کے لوگ جو عمارتیں اور محلات بناتے تھے انہیں ہم نے تباہ کردیا، اور ان باغات کو بھی جنہیں وہ ٹٹیوں پر چڑھایا کرتے تے
(70) اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد بنی اسرائیل کو زمین کی سیادت عطا کی، مصر وشام کے علاقے ان کے زیر تصرف آگئے، یہ وہی لوگ تھے جنہیں فرعون نے اپنا غلام بنا رکھا تھا اور جن کے ہزاروں بچوں قتل کروادیا تھا، لیکن جب وہ موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے اور مصائب وآلام پر صبر واستقامت سے کام لیا، تو اللہ تعالی نے انہیں زمین کا مالک بنا دیا اور فرعون کے محلوں اور باغات کو تاراج کردیا، اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ قصص آیات (5/6) میں بیان کیا ہے، :یعنی پھر ہماری چاہت ہوئی کہ ہم ان پر کرم فرمائیں انہیں زمین میں بہت کمزور کردیا گیا تھا، اور فرعون اور ہامان اور ان کے لشکروں کو وہ دکھائیں جس سے وہ ڈر رہے تھے۔ فرعونیوں کی ہلاکت وبربادی اور ان کی تباہی کا حال سورۃ دخان (25/26/27/28) میں اللہ تعالیٰ نے یوں بیان کیا ہے : یعنی وہ بہت سے باغات اور چشمے چھوڑ گئے، اور کھیتوں اور آرام دہ مکانات اور انواع واقسام کی نعمتیں، جن میں وہ عیش کر رہے تھے، سب دھری کی دھری رہ گئیں، اور ہم نے ان سب کا وارث دوسری قوم کو بنا دیا۔