قَالَ فِرْعَوْنُ آمَنتُم بِهِ قَبْلَ أَنْ آذَنَ لَكُمْ ۖ إِنَّ هَٰذَا لَمَكْرٌ مَّكَرْتُمُوهُ فِي الْمَدِينَةِ لِتُخْرِجُوا مِنْهَا أَهْلَهَا ۖ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ
فرعون نے کہ اس کے قبل کہ میں اجازت دیتا، تم لوگ اس پر ایمان (61) لے آئے، یہ یقیناً ایک سازش ہے جو تم لوگوں نے شہر میں اس غرض سے کی ہے تاکہ اس کے رہنے والوں کو یہاں سے نکال دو، پس تم عنقریب جان لوگے کہ تمہارا انجام کیا ہوتا ہے
(61) جب حق واضح ہوگیا اور تمام جادوگر موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے تو فرعون نے اپنی ذلت ورسوائی پر پردہ ڈالنے کے لیے کہا کہ تم لوگ میری اجازت کے بغیر موسیٰ پر ایمان لے آئے ہو، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم یہاں آنے سے پہلے موسیٰ کے ساتھ مل گئے تھے، اور ایک رچی رچائی سازش کے مطابق یہاں آئے ہو کہ پہلے تم لوگ موسیٰ کے خلاف بظاہر اپنی تیزی دکھاؤ گے، اور پھر اس کے سامنے جھک جاؤ گے، تاکہ تم سب مل کر قبطیوں کو یہاں سے نکال دو اور ان کی جگہ تم لے لو، موسیٰ تمہارا بادشاہ بن جائے اور تم لوگ اس کے ساتھ رہنے لگو تو عنقریب تم لوگ اپنے انجام کو پہنچ جاؤ گے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ یہ بھی فرعون کی سازش تھی، اس لیے کہ موسیٰ (علیہ السلام) تو مدین سے آتے ہی فرعون کے پاس پہنچے تھے اور اپنی دعوت پیش کی تھی اور اس کے مطالبہ پر معجزات پیش کیا تھا، انہیں جادو گروں سے ملنے کا کب موقع ملا تھا ،؟ اور جادوگر تو مختلف علاقوں سے جمع کئے گئے تھے، اور ان کی بھر پور خواہش تھی کہ وہ غالب آجاتے، موسیٰ (علیہ السلام) ان میں سے کسی کو بھی نہیں جانتے تھے اور فرعون سب کچھ جانتا تھا لیکن اس نے اپنی رعایا کو بیوقوف بنانا چاہا جیسا کہ اللہ نے سورۃ زخرف کی آیت (54) فرمایا ہے : فرعون نے اپنی قوم کو بہلایا اور پھسلا یا تو انہوں نے اس کی بات مان لی، اور اس قوم سے بڑھ کر جاہل اور گمراہ کون ہوسکتا ہے جس سے فرعون نے جب کہا میں تمہارا اب سب سے بڑا رب ہوں، تو اس کی بات مان لی؟!