سورة الاعراف - آیت 33

قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

آپ کہئے کہ میرے رب نے تمام ظاہر و پوشیدہ بدکاریوں (23) کو، اور گناہ اور ناحق سرکشی کو حرام کردیا ہے، اور یہ (بھی حرام کردیا ہے) کہ تم لوگ اللہ کا شریک ایسی چیزوں کو ٹھہراؤ جن کی عبادت کی اللہ نے کوئی دلیل نہیں نازل کی ہے، اور یہ بھی کہ تم اللہ کا شریک ایسی چیزوں کو ٹھہراؤ جن کی عبادت کی اللہ نے کوئی دلیل نہیں نازل کی ہے، اور یہ بھی کہ تم اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کرو جن کا تمہیں علم نہیں ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣٣] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے پانچ حرام چیزوں کا ذکر فرمایا جن کا تعلق کھانے کی چیزوں سے نہیں بلکہ اعمال سے ہے سب سے پہلے بے حیائی کا ذکر اس لیے فرمایا کہ سیدنا آدم علیہ السلام کے قصے سے یہ بیان چلا آ رہا ہے کہ کس طرح شیطان نے آدم و حوا (علیہما السلام) کو بے ستر کیا۔ پھر مشرکین مکہ کا ذکر کیا جو طواف تک برہنہ ہو کر کرتے اور اسے مذہبی تقدس کا درجہ دیتے تھے اور گناہ کا لفظ اگرچہ چھوٹے بڑے ہر طرح کے گناہ پر استعمال ہوتا ہے تاہم غالباً یہ لفظ یہاں ایسے گناہ کے لیے آیا ہے جس کا اثر اس کی ذات تک محدود رہے کسی دوسرے کو اس کا نقصان نہ پہنچ رہا ہو اور ناحق زیادتی سے مراد ایسے گناہ ہیں جن سے دوسروں کے حقوق تلف ہوتے ہوں اور شرک تو تمام حرام کاموں میں سرفہرست ہے اور اللہ کے ذمے لگانے کی اس مقام پر وہی مثال کافی ہے جو مشرک کہتے تھے کہ آیت ﴿وَاللّٰہُ اَمَرَنَا بِہَا﴾ (الاعراف :28)