وَإِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً قَالُوا وَجَدْنَا عَلَيْهَا آبَاءَنَا وَاللَّهُ أَمَرَنَا بِهَا ۗ قُلْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ ۖ أَتَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
اور مشرکین جب کوئی برا کام (17) (مثلاً شرک اور ننگے ہو کر طواف کعبہ) کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادوں کو ایسا ہی کرتے پایا تھا، اور اللہ نے ہمیں اسی کا حکم دیا ہے، آپ کہئے کہ اللہ برائی کا حکم نہیں دیتا ہے، کیا تم اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کرتے ہو جن کا تمہیں کوئی علم نہیں ہے
[٢٦] ٭ننگے طواف کرنا، برہنگی ہر جاہلی تہذیب کا جزء ہے : دور جاہلیت میں عرب لوگ ننگا ہوجانے کو کوئی معیوب فعل تصور نہیں کرتے تھے۔ بغیر پردہ یا اوٹ کے ننگے نہانا، راستے میں ہی بلا جھجک رفع حاجت کے لیے بیٹھ جانا یا محفل میں کسی کے ستر کھل جانے کو وہ عیب نہیں سمجھتے تھے اور اہل عرب ہی کا کیا ذکر ہر جاہلی معاشرہ میں یہی حالت ہوتی ہے۔ اہل عرب میں جو اس سے بھی زیادہ شرمناک فعل تھا وہ یہ تھا کہ وہ کعبہ کا طواف بھی ننگے ہو کر کرتے تھے اور انہوں نے اپنے اس فعل کو مذہبی تقدس کا درجہ دے رکھا تھا عورتیں اس شرمناک فعل میں مردوں سے بھی دو ہاتھ آگے تھیں جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایام جاہلیت میں عورت برہنہ ہو کر کعبہ کا طواف کرتی اور کہتی جاتی کہ ’’کوئی ہے جو مجھے عاریتاً ایک کپڑا دے تاکہ میں اس سے شرمگاہ ڈھانپ لوں۔ پھر کہتی آج یا تو کچھ شرمگاہ کھلی رہے گی یا پوری کھلی رہے گی بہرحال جتنی بھی کھلی رہے گی میں اسے کسی پر حلال نہیں کروں گی۔‘‘ آیت ﴿خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ كُلِّ مِسْجِدٍ﴾ (الاعراف :31) اسی بارے میں نازل ہوئی (مسلم۔ کتاب التفسیر) اور یہ بد رسم فتح مکہ کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سے ختم کی گئی۔ ٩ ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امیر حج بنا کر بھیجا اور بعد میں تاکید مزید کے طور پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔ چنانچہ حج کے اجتماع میں جو عام اعلان کیا گیا اس کے دو اہم نکات یہ تھے کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک بیت اللہ میں داخل نہیں ہوسکتا اور دوسرا یہ کہ آئندہ کوئی ننگے ہو کر کعبہ کا طواف نہیں کرسکتا۔ (بخاری۔ کتاب المناسک۔ باب لایطوف بالبیت عریانا ) ٭ جس کام میں بے حیائی ہو وہ اللہ کا حکم نہیں ہوسکتا :۔ مشرکین مکہ اگرچہ برہنگی کو باعث عار اور معیوب فعل نہیں سمجھتے تھے تاہم انہیں یہ اعتراف ضرور تھا کہ ایسی برہنگی اور بے حیائی کوئی اچھا کام نہیں پھر جب انہیں اس کام سے روکا جاتا تو وہ جواب یہ دیتے کہ ہمارے آباو اجداد اور بڑے بزرگ بھی کعبہ کا طواف ننگے ہو کر کرتے آئے ہیں وہ بزرگ ہم سے زیادہ دیندار تھے پھر بھلا ہم کیوں نہ کریں۔ تقلید آباء کے رد میں اللہ تعالیٰ نے یہ جواب دیا کہ جب تمہارے سب سے بڑے باپ اور بزرگ آدم علیہ السلام شیطان کے بہکاوے میں آ گئے تھے تو پھر یہ بزرگ کیوں شیطان کے ہتھے نہیں چڑھ سکتے اور چونکہ وہ اس طواف کو متبرک اور دین ہی کا حکم سمجھتے تھے لہذا فوراً کہہ دیتے کہ یہ اللہ ہی کا حکم ہوگا جو ہمارے بزرگ برہنہ ہو کر طواف کرتے تھے۔ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ اللہ تعالیٰ تو بے حیائی کے کاموں سے روکتا ہے وہ اس کا حکم کیسے دے سکتا ہے؟ بالفاظ دیگر جس چیز میں بے حیائی پائی جاتی ہو وہ اللہ کا حکم کبھی نہیں ہو سکتا۔