بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِهِ أَنفُسَهُمْ أَن يَكْفُرُوا بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ بَغْيًا أَن يُنَزِّلَ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ فَبَاءُوا بِغَضَبٍ عَلَىٰ غَضَبٍ ۚ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ مُّهِينٌ
بڑی ہی بری وہ چیز (١٤٣) تھی جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا، یعنی الہ کی نازل کردہ (کتاب) کا انکار کردیا، سرکشی اور حسد کی وجہ سے کہ اللہ اپنا فضل اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے (کیوں) اتارتا ہے۔ پس وہ (اللہ کے) غضب پر غضب کے مستحق بنے، اور کافروں کو بڑا رسوا کن عذاب ملے گا
[١٠٦] ان یہود کے بغض و عناد کی اصل وجہ یہ تھی کہ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم ان کی قوم سے کیوں نہیں آیا۔ اور اس قوم میں کیوں پیدا ہوا ہے؟ جسے یہ ان پڑھ، اجڈ اور اپنے سے حقیر تر سمجھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ اپنے کاموں کی حکمتیں خود بہتر سمجھتا ہے اور اپنے بندوں میں سے جسے مناسب سمجھتا ہے رسالت سے نوازتا ہے۔ تم اس کے فضل کے ٹھیکیدار تو نہیں کہ تم سے اللہ پوچھ کر اور جسے تم چاہو اسے رسالت عطا فرمائے۔ [١٠٧] یہود کے جرائم کی فہرست تو بہت طویل ہے جن میں سرفہرست ایک نبی کی موجودگی میں بچھڑے کی پرستش، انبیاء کا قتل اور دیدہ دانستہ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا انکار ہے اور ایسے جرائم کی سزا تو جتنی بھی ہو وہ کم ہے۔ ضمناً اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہر عذاب ذلت کے لیے نہیں ہوتا بلکہ گنہگار مسلمانوں کو جو عذاب ہوگا وہ انہیں گناہوں سے پاک کرنے کے لیے ہوگا۔ ذلیل و رسوا کرنے کے لیے نہ ہوگا۔ البتہ کافروں کو جو عذاب دیا جائے گا وہ بغرض تذلیل ہوگا۔