قُلْ هَلُمَّ شُهَدَاءَكُمُ الَّذِينَ يَشْهَدُونَ أَنَّ اللَّهَ حَرَّمَ هَٰذَا ۖ فَإِن شَهِدُوا فَلَا تَشْهَدْ مَعَهُمْ ۚ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَهُم بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ
آپ کہئے، تم لوگ اپنے ان گواہوں (150) کو لاؤ جو گواہی دیں کہ بے شک اللہ نے وہ جانور حرام کردئیے تھے، پس اگر وہ لوگ گواہی دیں تو آپ ان کے ساتھ گواہی نہ دیجئے، اور ان لوگوں کی خواہشات کی اتباع نہ کیجئے جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتے ہیں، اور جو آخری پر ایمان نہیں رکھتے، اور غیر اللہ کو اپنے رب کے برابر مانتے ہیں
[١٦٤] یہود سے شہادت طلب کرنے کی وجہ :۔ یہاں شہادت سے مراد یقین کی بنا پر شہادت ہے اور وہ یہ شہادت دیں کہ واقعی فلاں فلاں چیزیں اللہ نے فلاں فلاں کے لیے حرام یا حلال قرار دی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی شہادت وہ دے نہیں سکتے تھے۔ تاہم اگر کچھ لوگ ڈھیٹ بن کر جھوٹی شہادت دینے پر آمادہ ہو ہی جائیں تو آپ ان کے ہمنوا نہ بن جائیں۔ ان سے یہ شہادت اس لیے نہیں طلب کی جارہی کہ اگر وہ شہادت دیں تو آپ ان کی بات مان لیں بلکہ اس لیے طلب کی جا رہی ہے کہ جب وہ ایسی شہادت پیش نہ کرسکیں گے تو ممکن ہے کہ بعض صحیح عقل رکھنے والے لوگ ایسی مشرکانہ رسوم سے باز آ جائیں جو سراسر توہمات اور ظن و تخمین پر مبنی ہیں۔ اور اس قسم کی جھوٹی شہادت دینے پر ایسے لوگ ہی آمادہ ہو سکتے ہیں جنہیں آخرت کے دن پر اور اللہ کے حضور اپنے اعمال کی جواب دہی پر ایمان ہی نہ ہو۔ ایسے ہی لوگ اللہ کی آیات کو جھٹلاتے اور حلت و حرمت کے احکام اپنے ہاتھ میں لے کر اللہ کے ہمسر بنتے ہیں۔