وَمِنَ الْإِبِلِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَيْنِ ۗ قُلْ آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنثَيَيْنِ أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ أَرْحَامُ الْأُنثَيَيْنِ ۖ أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ وَصَّاكُمُ اللَّهُ بِهَٰذَا ۚ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا لِّيُضِلَّ النَّاسَ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
اور اونٹ کی قسم سے نر اور مادہ (144) دو، اور گائے کی قسم سے نر اور مادہ دو، ذرا آپ ان سے پوچھئے تو سہی کہ اللہ نے دونوں مذکروں کو حرام کیا ہے یا دونوں مؤنثوں کو یا ان بچوں کو جو دونوں مونثوں کے پیٹ میں ہوتے ہیں، کیا جب اللہ نے تمہیں (کچھ جانوروں کو حلال کرنے اور کچھ کو حرام کرنے کا) اختیار دیا تھا، تو تم لوگ اس وقت موجود تھے؟ پس اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ کے بارے میں جھوٹ بولتا ہے، تاکہ لوگوں کو بغیر جانے سمجھے گمراہ کرے، بے شک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ہے
[١٥٦] مشرکین کے حلت وحرمت کے عقائد کی عقلی ونقلی تردید :۔ یعنی کسی چیز کی تحقیق کے لیے شہادتیں ضروری ہیں اور یہ شہادت دو طرح کی ہوتی ہے ایک یقینی علم کی بنا پر شہادت، دوسرے آنکھوں دیکھی شہادت۔ اس سے پہلی آیت کے آخر میں ﴿نَبِّـــــُٔـوْنِیْ بِعِلْمٍ﴾ فرما کر علمی شہادت کی تردید فرمائی یعنی اللہ کی کسی کتاب سے یہ مشرک کوئی ایسی دلیل پیش نہیں کرسکتے جس سے ان کی حلت و حرمت کے متعلق خود ساختہ پابندیوں کا جواز معلوم ہوتا ہو اور اس آیت کے آخر میں یہ فرما کر کہ ’’کیا تم اس وقت موجود تھے جب اللہ نے ایسا حکم دیا تھا۔‘‘ عینی شہادت کی تردید فرما دی۔ مطلب یہ ہے کہ مشرکوں کے یہ توہمات اور اختراعات جو عقائد میں شامل ہوچکے ہیں ایسے لغو ہیں جنہیں کسی طرح بھی معقول یا منجانب اللہ ثابت نہیں کیا جا سکتا۔