وَإِذَا جَاءَتْهُمْ آيَةٌ قَالُوا لَن نُّؤْمِنَ حَتَّىٰ نُؤْتَىٰ مِثْلَ مَا أُوتِيَ رُسُلُ اللَّهِ ۘ اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ ۗ سَيُصِيبُ الَّذِينَ أَجْرَمُوا صَغَارٌ عِندَ اللَّهِ وَعَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا كَانُوا يَمْكُرُونَ
اور جب ان کے پاس کوئی نشانی (121) آتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو ہرگز ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ ہمیں وہ چیز (یعنی رسالت) نہ دی جائے جو اللہ کے رسولوں کو دی جاتی تھی، اللہ کو خوب معلوم ہے کہ وہ اپنی رسالت کہاں ودیعت کرے، عنقریب ان مجرموں (122) کو اللہ کے نزدیک ان کے مکر و فریب کی وجہ سے ذلت و رسوائی اور شدید عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا
[١٣١] رسالت وہبی چیز اور کفار کا مطالبہ رسالت :۔ جیسے مثلاً انشقاق قمر کا معجزہ دیکھا تو کہہ دیا کہ یہ صاف جادو ہے یہ ان کی ہٹ دھرمی کی ایک دلیل ہے اور اب کہہ رہے ہیں کہ رسولوں کی طرح ہم پر فرشتہ نازل ہو اور رسولوں کو جو کتاب و حکمت اور نبوت دی گئی ہے۔ یہ چیزیں جب تک ہمیں میسر نہ ہوں ہم ایمان نہیں لا سکتے حالانکہ وحی کا بار ہر انسان اٹھانے کا متحمل ہی نہیں ہوتا۔ یہ استعداد اللہ تعالیٰ انبیاء کے قلوب میں پیدائش ہی سے رکھ دیتا ہے اور یہ صفت اللہ کا دین اور فضل ہوتی ہے۔ محنت مشقت اور ریاضتوں سے حاصل نہیں ہو سکتی اور یہ بات بھی اللہ ہی جانتا ہے کہ انسانوں میں کون نبوت کا بار اٹھانے کے قابل ہے اور یہ لوگ جو کچھ کر رہے ہیں تکبر اور سرکشی کی بنا پر کر رہے ہیں اور حق کے راستہ میں اپنے مکر و فریب سے جو کانٹے بچھا رہے ہیں اس کی پاداش میں انہیں ذلت اور رسوائی کے عذاب سے اس دنیا میں بھی دوچار ہونا پڑے گا اور آخرت میں بھی۔