وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِّنكُمْ وَأَنتُم مُّعْرِضُونَ
اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے اقرار (١٢٩) لے کہ تم اللہ کے سو کسی کی عبادت (١٣٠) نہیں کرو گے اور والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کروگے، اور رشتہ داروں، یتیموں (١٣١) اور مسکینوں کے ساتھ بھی (اچھا سلوک کروگے) اور لوگوں کے ساتھ اچھی (١٣٢) بات کرو، اور نماز قائم کرو اور زکاۃ دو، پھر کچھ افراد (١٣٣) کے سوا، تم سب نے منہ پھیرتے ہوئے اس عہد کو پس پشت (١٣٤) ڈال دیا
[٩٦] گو بظاہر یہ خطاب یہود مدینہ سے ہے۔ تاہم یہ ایسے احکام ہیں جو ہر شریعت میں غیر متبدل رہے ہیں اور ہماری شریعت میں بھی بعینہ موجود ہیں۔ رہا عہد کرنے کے بعد بنی اسرائیل کی عہد شکنی کا قصہ تو یہ ان کی عادت ثانیہ بن چکی تھی اور ان کی تاریخ ایسی عہد شکنیوں سے بھری پڑی ہے۔