وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتَىٰ وَحَشَرْنَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَيْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُونَ
اور اگر ہم ان کے پاس فرشتے (108) اتار دیتے، اور ان سے مردے بھی بات کرنے لگتے، اور ہر چیز کو ان کے سامنے لا کھڑا کردیتے تو بھی وہ ایمان لانے والے نہیں تھے، سوائے اس کے کہ اللہ چاہے (تو وہ اور بات ہے) لیکن ان میں سے اکثر لوگ نادان ہیں
[١١٣] اس آیت میں بھی کفار کے کسی حسی معجزہ کے مطالبہ کا جواب دیا جا رہا ہے یعنی ان بدبختوں کا یہ حال ہے کہ اگر ہم فرشتے نازل کرتے جو ان کے سامنے گواہی دیتے کہ یہ پیغمبر واقعی اللہ کا رسول ہے اور یہ کتاب واقعی منزل من اللہ ہے۔ اور قبروں سے مردے اٹھ کر ان کو بتاتے کہ واقعی جو کچھ یہ پیغمبر کہتا ہے سچ کہتا ہے اور مرنے کے بعد کے حالات کچھ ہم دیکھ چکے ہیں بلکہ لاکھ معجزے ان کو دکھا دیتے تو صاف کہہ دیتے کہ یہ تو صاف جادو ہے اور ہماری نظر بندی کردی گئی ہے ایمان لانے کی طرف پھر بھی نہ آتے۔ [١١٤] ﴿ اِنْ یَشَاِ اللّٰہُ﴾ کا ایک مطلب تو وہی ہے جو ترجمہ میں بیان کردیا گیا ہے یعنی کوئی ایک آدھ آدمی ایمان لے آتا جس کے نصیب میں ہوتا اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ کی مشیئت میں ہوتا تو یہ سب ایمان لا سکتے تھے مگر اس طرح کا جبری ایمان نہ اللہ کی مشیئت میں ہے اور نہ اس کا کچھ فائدہ ہوتا ہے۔ [١١٥] یہ خطاب ان مسلمانوں کی طرف بھی ہوسکتا ہے جو یہ چاہتے تھے کہ اگر ان کے معجزہ کے مطالبہ کی حجت پوری کردی جائے تو شاید یہ کافر ایمان لے ہی آئیں اور بتایا یہ جا رہا ہے کہ یہ نادانی کی باتیں ہیں ان سے ایمان لانے کی توقع رکھنا عبث اور فضول ہے اور ان کافروں کی طرف بھی جو کسی حسی معجزہ کا مطالبہ کر رہے تھے ان کا یہ مطالبہ ہی ان کی نادانی کی دلیل ہے کہ جو شخص اپنے اندر اور اپنے باہر کائنات میں پھیلی ہوئی لاکھوں نشانیوں سے ہدایت حاصل نہیں کرنا چاہتا وہ ایسے معجزہ کو دیکھ کر بھی باتیں ہی بناتا رہے گا۔