وَزَكَرِيَّا وَيَحْيَىٰ وَعِيسَىٰ وَإِلْيَاسَ ۖ كُلٌّ مِّنَ الصَّالِحِينَ
اور زکریا اور یحیی اور عیسیٰ اور الیاس کو بھی (راہ راست دکھائی تھی) یہ سب نیک لوگوں میں سے تھے
[٨٣] شرک کو ختم کرنا سب سے بڑا جہاد ہے :۔ قرآن میں اکثر مقامات پر جب انبیائے کرام کا ذکر ہوا تو اس میں ترتیب زبانی بھی پائی جاتی ہے لیکن یہاں غالباً اس صفت کو زیادہ تر ملحوظ رکھا گیا ہے کہ ان میں سے کس نے شرک کے خلاف سب سے زیادہ جہاد کیا تھا یا بعض دوسری صفات کو ملحوظ رکھا گیا ہے تو ان میں سے سرفہرست سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا ہی ذکر کیا جنہیں اللہ تعالیٰ نے اسی صفت کی بنا پر (اُمَّۃً قَانِۃً) فرمایا اور اپنا دوست بنایا۔ پھر سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر انعامات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کے بیٹے اسحاق علیہ السلام اور پھر ان کے بیٹے یعقوب علیہ السلام کو نبوت سے سرفراز فرمایا اور آئندہ کے لیے نبوت انہیں کی اولاد سے مختص کردی، بعد ازاں سیدنا نوح علیہ السلام کا ذکر فرمایا جنہوں نے ساڑھے نو سو سال کا طویل عرصہ شرک ہی کے خلاف جہاد میں گزارا تھا۔ حالانکہ ان کا زمانہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے بہت پہلے کا ہے۔ ان پر انعام یہ ہوا کہ ان کے بعد نبوت آپ کی اولاد میں مختص ہوگئی تھی پھر اس کے بعد سیدنا داؤد علیہ السلام اور ان کے بیٹے سیدنا سلیمان علیہ السلام کا ذکر فرمایا۔ جنہیں نبوت کے علاوہ حکومت بھی عطا ہوئی تھی اور انہوں نے بزور شمشیر شرک کے زور کو توڑا تھا۔ پھر سیدنا ایوب علیہ السلام کا ذکر کیا جنہوں نے اس حق و باطل کی کشمکش میں کمال صبر کا مظاہرہ کیا حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ﴿ِنَّا وَجَدْنٰہُ صَابِرًا ﴾ کا خطاب دیا اور سیدنا یوسف علیہ السلام کے صبر کی تعریف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمائی آپ سات سال بے قصور قید میں پڑے رہے پھر جب شاہ مصر کی طرف سے بلاوا آیا تو آپ علیہ السلام نے قاصد سے کہا کہ پہلے بادشاہ سے پوچھو کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے مجھ پر الزام لگایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں اتنی مدت قید میں پڑا ہوتا تو قاصد سے کچھ کہے بغیر ہی اس کے ساتھ ہو لیتا۔ (بخاری۔ کتاب الانبیاء۔ باب لقد کان فی یوسف۔۔) اللہ نے انہیں بھی حکومت عطا فرمائی تھی اور ایک حدیث میں آتا ہے کہ صحابہ نے آپ سے پوچھا کہ سب سے مکرم کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’یوسف جو خود بھی نبی تھے۔ ان کا باپ بھی نبی، دادا بھی نبی اور پڑدادا (سیدنا ابراہیم علیہ السلام) بھی نبی تھے۔‘‘ اس کے بعد موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کا ذکر فرمایا۔ موسیٰ کلیم اللہ تھے اور انہی کی درخواست پر سیدنا ہارون علیہ السلام کو نبوت ملی تھی تاکہ صدیوں سے بگڑے ہوئے بنی اسرائیل کو راہ راست پر لانے کے لیے ان کا ہاتھ بٹائیں۔ انہوں نے بھی ساری زندگی بنی اسرائیل کے ہاتھوں تکلیفیں ہی اٹھائیں۔ پھر ان کے بعد سیدنا زکریا، یحییٰ اور عیسیٰ علیہم السلام کا ذکر فرمایا۔ ان میں سے دو کو تو بنی اسرائیل نے دعوت حق دینے کی پاداش میں قتل کروا دیا تھا اور تیسرے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر لٹکوانے کی کوشش کی۔ پھر سیدنا الیاس، اسماعیل، الیسع، یونس اور لوط علیہم السلام کا ذکر فرمایا پھر سب انبیاء کے متعلق ایک یکساں تبصرہ فرمایا۔ یہ سب لوگ صالح تھے اور اپنے اپنے وقت میں تمام اقوام عالم اور افراد سے افضل تھے اس لیے کہ انہوں نے شرک کے خلاف جہاد کیا اور توحید کا بول بالا کرنے کے لیے اور دعوت حق کی خاطر تکلیفیں اٹھائی تھیں۔