وَكَذَٰلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ
اور اس طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی سلطنت (70) دکھاتے تھے، تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہوجائیں
[٨١۔ ١] ابراہیم علیہ السلام کا کائناتی مطالعہ :۔ نجوم پرستی کا آغاز عراق کے علاقہ میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی بعثت سے بہت پہلے ہوچکا تھا۔ ستاروں اور چاند، سورج وغیرہ کی ارواح کی تصوراتی شکلیں متعین کر کے ان کے مجسمے بنائے جاتے اور ان مجسموں کو مندروں میں پرستش کے لیے رکھا جاتا تھا۔ ان سیاروں کے انسانی زندگی پر طرح طرح کے اثرات تسلیم کیے جاتے تھے اور لوگ اپنی زندگی اور موت، مرض اور صحت، خوشحالی اور تنگ دستی ایسے ہی کئی دوسرے امور کو سیاروں کی چال سے منسوب کرتے اور ان کے مضر اثرات سے بچنے کے لیے متعلقہ ستاروں کے مجسموں کے سامنے مندروں میں نذر و نیاز پیش کرتے تھے۔ مندروں کے نام پر بڑی بڑی جاگیریں وقف ہوتیں اور ان کے سرمایہ کو تجارت اور صنعت پر بھی لگایا جاتا اور یہ سب کام مندروں کے پجاریوں کی معرفت طے پاتے تھے۔ اس طرح کہ یہ جاگیر دار اور سرمایہ دار ملک کے تمدن، معیشت اور سیاست پر بہت حد تک اثر انداز ہوتے تھے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا باپ ایسے ہی کسی بڑے مندر کا شاہی مہنت تھا۔ نذرانے وصول کرنے کے علاوہ بت گری اور بت فروشی کا کاروبار بھی کرتا تھا۔ کھانے پینے کی فراغت کے علاوہ معاشرہ کے معززین میں اس کا شمار ہوتا تھا۔ آپ علیہ السلام نے ایسے ہی ماحول میں پرورش پائی۔ آپ کو معلوم ہوا کہ فلاں فلاں قسم کے بت فلاں ستارہ کے ہیں اور فلاں بت چاند کے اور فلاں سورج کے، علاوہ ازیں ان لوگوں نے اپنے شہروں کے نام بھی انہی بتوں کے نام پر رکھے ہوئے تھے۔ آپ کو بچپن میں ہی فطرت سلیمہ عطا ہوئی تھی۔ معاشرہ کی ان حرکات سے اور گھر کے ایسے ماحول سے ان کی طبیعت بے زار رہتی تھی۔ اور ہر وقت گہری سوچ میں پڑے رہتے تھے ایک دن انہوں نے رات کو ایک چمکدار ستارہ دیکھا جو کچھ عرصہ بعد مغرب میں جا کر غروب ہوگیا انہیں یکدم خیال آیا کہ جو چیز میرے پاس موجود بھی نہیں رہ سکتی وہ میری یا کسی دوسرے کی مشکلات کو کیا دور کرے گی۔ پھر چاند کو دیکھا تو اس کا بھی یہی حال تھا۔ پھر سورج پر غور کیا تو اس کا معاملہ بھی ایسا ہی تھا۔ جو ایک مقررہ رفتار سے چلتے ہوئے مشرق سے طلوع ہوتے اور مغرب میں غروب ہوجاتے تھے۔ انہوں نے سوچا جو چیزیں نظم و ضبط کی اس قدر پابند اور اپنے اپنے کام پر مجبور و بے بس ہیں وہ خدا کیسے ہو سکتی ہیں خدا تو وہ ہوسکتا ہے جس نے ان تمام چیزوں کو کنٹرول میں رکھا ہوا ہے۔ آپ نے ایک طویل مدت ان حالات پر غور کیا بالآخر اللہ نے خود آپ کی رہنمائی کی اور آپ کو نبوت کے منصب پر سرفراز فرمایا اور وحی کے ذریعہ اس کائنات کے اسرار آپ پر منکشف کردیئے۔ اس وقت آپ نے اللہ کا شکر ادا کیا جس نے آپ کو ان تفکرات سے نجات دلائی جس میں آپ مدتوں سے سوچ بچار کر رہے تھے اور ان گمراہیوں سے نکال لیا جن میں آپ کی پوری کی پوری قوم ڈوبی ہوئی تھی۔ آپ کو جب یہ یقین حاصل ہوگیا تو سب سے پہلے آپ نے اپنے گھر سے اصلاح احوال کا آغاز کیا اور اپنے باپ سے کہا کہ آپ نے اور آپ کی قوم نے جو یہ مندروں میں بت ٹکا رکھے ہیں اور انہیں اپنا حاجت روا سمجھ رہے ہو یہ تو انتہائی غلط روش اور سراسر گمراہی ہے۔ باپ نے ڈانٹ پلا کر خاموش کردیا تو آپ نے اپنی قوم کے دوسرے لوگوں کو یہی ہدایت کی باتیں سمجھانا شروع کردیں۔