قُلْ إِنِّي عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّي وَكَذَّبْتُم بِهِ ۚ مَا عِندِي مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِهِ ۚ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۖ يَقُصُّ الْحَقَّ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الْفَاصِلِينَ
آپ کہئے کہ مجھے میرے رب کی جانب سے ایک کھلی دلیل (55) ملی ہوئی ہے، اور تم اسے جھٹلاتے ہو، تم جس (عذاب) کے لیے جلدی کر رہے ہو وہ میرے پاس نہیں ہے، اللہ کے علاوہ کسی کے ہاتھ میں فیصلہ نہیں ہے، وہ حق بات بیان کرتا ہے، اور وہ سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا ہے
[٦١] اگر تم سچے ہو تو ہم پر عذاب کیوں نہیں آتا ؟ اس آیت میں ایسے مجرموں یا ہٹ دھرموں کی ایک اور صفت بیان کی گئی ہے۔ کفار مکہ یہ کہتے تھے کہ اگر تم سچے نبی ہوتے تو تم اور تمہارے ساتھی ایسی بے بسی اور درماندگی کی حالت میں کیوں ہوتے؟ اور جس طرح ہم تم لوگوں پر سختیاں کر رہے ہیں اگر تم سچے ہوتے تو اب تک ہم پر وہ عذاب آ جانا چاہیے تھا جس کی تم ہمیں دھمکیاں دیتے رہتے ہو۔ مجرموں کی اسی بات کا جواب اللہ نے یہ دیا ہے کہ آپ ان سے کہہ دیجئے کہ میرے اپنے اطمینان کے لیے یہ بات کافی ہے کہ ٹھیک ٹھیک اس راہ راست پر جا رہا ہوں جو اللہ نے میری طرف وحی کیا ہے۔ رہی یہ بات کہ تم پر وہ عذاب اب تک کیوں نہیں آ چکا تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا عذاب لے آنا میرے اختیار میں نہیں۔ یہ کام تو اللہ کا ہے۔ جب وہ ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرنا چاہے گا تمہیں ایسے عذاب سے دوچار کر دے گا۔