وَلَا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ ۖ مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِهِم مِّن شَيْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَيْهِم مِّن شَيْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُونَ مِنَ الظَّالِمِينَ
اور آپ ان لوگوں کو نہ بھگائیے (51) جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں، اس کی خوشنودی چاہتے ہیں، آپ کو ان کا حساب نہیں دینا ہے، اور نہ انہیں آپ کا حساب دینا ہے، پس آپ انہیں اگر بھگا دیں گے تو ظالموں میں سے ہوجائیں گے
[٥٥] قریشی سرداروں کا ناتواں صحابہ کو اپنے ہاں سے اٹھانے کا مطالبہ :۔ بعض معززین قریش، جن میں سے اقرع اور عیینہ کا بالخصوص ذکر آیا ہے، آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ہمارا آپ کی مجلس میں آنے کو جی تو چاہتا ہے مگر آپ کے گرد یہ کچھ حقیر قسم کے لوگ بیٹھے ہوتے ہیں۔ لہٰذا ہم جھجک محسوس کرتے ہیں۔ البتہ اگر آپ انہیں اپنی مجلس سے نکال دیں تو ہم آپ کے پاس آنے کو تیار ہیں آپ چونکہ ان بڑے بڑے قریشیوں کے ایمان لانے پر بڑے حریص تھے لہٰذا دل میں کوئی ایسی ترکیب سوچ ہی رہے تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے : سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم چھ آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے۔ مشرکین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ’’ان لوگوں کو اپنی مجلس سے نکال دیجئے تاکہ یہ ہم پر جرأت نہ کریں۔‘‘ وہ چھ آدمی یہ تھے۔ میں خود، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ، ہذیل کا ایک آدمی، بلال رضی اللہ عنہ اور دو آدمی جن کا میں نام نہیں لیتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں جو اللہ نے چاہا، خیال آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بات سوچ ہی رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (مسلم۔ کتاب الفضائل۔ باب فی فضل سعد بن ابی وقاص) اور ابن ماجہ کی روایت کے مطابق یہ چھ آدمی درج ذیل تھے : سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ، صہیب رومی رضی اللہ عنہ ، عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ ، مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ اور بلال بن رباح رضی اللہ عنہ (حبشی) اقرع اور عیینہ نے تنہائی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہمیں ان غلاموں کے ساتھ بیٹھنے میں شرم محسوس ہوتی ہے۔ لہٰذا جب ہم آپ کے پاس آئیں تو انہیں اٹھا دیا کیجئے۔ تب یہ آیت نازل ہوئی۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا صحابہ کی بہت تعریف بیان فرمائی اور فرما دیا کہ ان کو ہٹانے کی بات ہرگز نہ سوچئے۔ یہ انتہائی بے انصافی ہے کہ سچے مومنوں کو اس طمع سے اٹھایا جائے کہ دوسرے لوگ آ کر بیٹھیں جن کا ایمان لانا بھی یقینی نہ ہو۔