سورة الانعام - آیت 46

قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَخَذَ اللَّهُ سَمْعَكُمْ وَأَبْصَارَكُمْ وَخَتَمَ عَلَىٰ قُلُوبِكُم مَّنْ إِلَٰهٌ غَيْرُ اللَّهِ يَأْتِيكُم بِهِ ۗ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ ثُمَّ هُمْ يَصْدِفُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

آپ پوچھئے تمہارا کیا خیال (46) ہے، اگر اللہ تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں لے لے، اور تمہارے دلوں پر مہر لگا دے، تو کیا اللہ کے علاوہ کوئی معبود ہے جو وہ چیزیں تمہیں دوبارہ عطا کردے، آپ دیکھ لیجئے کہ ہم نشانیوں کو کس طرح مختلف انداز میں پیش کرتے ہیں، لیکن وہ پھر بھی اعراض سے ہی کام لیتے ہیں

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٤٩] آنکھ، کان اور دل اللہ کی آیات کیسے ہیں؟ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی تین نعمتوں کا ذکر کر کے انہیں اپنی آیات یا اللہ تعالیٰ کی ذات پر دلالت کرنے والی نشانیاں قرار دیا ہے سب سے پہلے سماعت کا ذکر کہ کس طرح کسی آواز سے ہوا میں لہریں پیدا ہوتی ہیں۔ پھر وہ لہریں کان کے پردوں سے ٹکراتی ہیں۔ اس تصادم کی آواز اعصاب کے ذریعہ دماغ تک پہنچتی ہے۔ دماغ فوراً اس آواز کا مطلب و مفہوم سمجھتا ہے اور پھر انسان اپنی زبان سے فوراً بات کرنے والے کو اس کا جواب دیتا ہے اور یہ سب کام اتنی جلدی وقوع پذیر ہوتے ہیں کہ بات کرنے والے کو فوراً اس کا جواب مل جاتا ہے۔ یہی صورت بصارت کی ہے۔ آنکھ کوئی چیز دیکھتی ہے تو اس چیز کی تصویر یا فوٹو یا عکس عدسہ پر پڑتا ہے۔ پھر وہی تصویر باریک سی نالیوں کے ذریعے دماغ کے پردہ پر پڑتی ہے اور دماغ فوراً یہ فیصلہ دیتا ہے کہ جو چیز آنکھ نے دیکھی وہ فلاں چیز ہے، فلاں رنگ کی ہے اور اس کی شکل اور قد و قامت اتنا اور اتنا ہے۔ دل کا نظام ان سے بھی پیچیدہ ہے۔ قوت تمیز، عقل ارادہ و اختیار کی سب قوتیں اس سے متعلق ہیں۔ کسی بات کو سوچنا، تدبیر کرنا اور فیصلہ کرنا سب کچھ اسی کا کام ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ اس سماعت، بصارت یا دل کے عمل کو اور اس کے نظام کو سلب کرلے تو کیا ان مشرکوں کے کسی الٰہ میں یہ طاقت ہے کہ وہ اس نظام کو بحال کر دے؟ لیکن یہ لوگ تو اللہ کی ان آیات میں غور ہی نہیں کرتے بلکہ جہاں اللہ کی آیات کا ذکر ہوتا ہو وہاں سے اپنا رخ ہی موڑ لیتے ہیں۔ اب اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ انسان نے جتنے بھی کمالات حاصل کیے ہیں۔ خواہ ان کا تعلق ایجادات سے ہو یا علم اور فلسفہ سے یا انسان کی خوشحالی اور حسن تدبیر سے، اور یہی وہ چیزیں ہیں جن پر انسان فخر و ناز کرتا ہے اور پھولا نہیں سماتا۔ حالانکہ ان تمام چیزوں کے حصول کا ذریعہ یہی آنکھیں، کان اور دل ہیں اور یہ خالصتاً اللہ کا عطیہ ہیں۔ پھر اگر اللہ اپنی دی ہوئی چیز واپس لے لے تو ان کے کسی الٰہ میں یہ قدرت ہے کہ وہ ان کی یہ چیزیں بحال کر دے؟ اور اگر وہ ایسا نہیں کرسکتے تو اللہ کے کاموں میں شریک کیسے ہوئے؟