وَقَالُوا إِنْ هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ
اور انہوں نے کہا کہ ہماری اس دنیاوی زندگی کے بعد اب کوئی زندگی (32) نہیں ہوگی اور ہم دوبارہ نہیں اٹھائے جائیں گے
[٣٣] تخلیق کائنات کے مختلف نظریئے۔ وجود باری تعالیٰ کے متعلق وحی سے بے نیاز ہو کر محض عقل و خرد سے کائنات کی تخلیق کی گتھی سلجھانے والے لوگ بھی ایک رائے پر متفق نہیں ہو سکے ایک گروہ کا خیال یہ ہے کہ یہ کائنات مادہ سے بنی ہے۔ اور مادہ اور اتفاقات کے نتیجہ میں ظہور پذیر ہوئی ہے۔ اصل چیز مادہ ہے اور وہی ازلی ابدی ہے۔ کائنات میں انسان کی وہی حیثیت ہے جو سمندر میں ایک بلبلہ کی ہے جو ہوا کی لہروں سے پیدا ہوتے اور پھر سمندر ہی میں مدغم ہوجاتے ہیں اسی طرح ہم پیدا ہوتے اور مر جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ہستی اور آخرت کے متعلق مختلف نظریات :۔ یہ لوگ وجود باری تعالیٰ کے بھی منکر اور آخرت کے بھی منکر ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کو مادہ پرست یا دہریے یا نیچری کہتے ہیں۔ اہل کتاب حتیٰ کہ مسلمانوں میں سے بھی بعض لوگ عقیدتاً اور بعض عملاً نیچری ہوتے ہیں۔ دوسرا گروہ بعض فلاسفروں اور سائنسدانوں کا ہے جو اس کائنات اور اس کے مربوط و منظم نظام کو دیکھ کر اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ کسی کنٹرول کرنے والی ہستی کے بغیر کائنات کا نظام چلنا محال ہے لہٰذا کسی ایسی ہستی کو تسلیم کرنے کے بغیر چارہ نہیں جو اس کائنات کو وجود میں لائی اور اس کا نظام چلانے والی ہے اس طرح یہ لوگ وجود باری تعالیٰ کے تو قائل ہیں مگر اخروی زندگی پر ان کا ایمان نہیں ہوتا۔ غالباً اس کی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ یہ لوگ دین کی پابندیوں سے آزاد رہ کر زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ مشرکین مکہ کا مذہب بہت حد تک انہی لوگوں سے ملتا جلتا ہے جو اللہ کے خالق و مالک ہونے کے تو قائل ہیں مگر اخروی زندگی کے قائل نہیں تھے۔ تاہم وہ اپنے آپ کو ملت ابراہیمی کا متبع قرار دیتے تھے۔ دیوی دیوتاؤں کی پوجا وہ دو وجہ سے کرتے تھے ایک یہ کہ ان کی دنیوی حاجات بر آئیں اور مشکلات دور ہوں اور دوسرے اس لیے کہ ان کے وسیلہ سے اللہ کا تقرب حاصل ہو۔ ایمان بالاخرت بھی چونکہ ایمان بالغیب کا ایک اہم جزو ہے لہٰذا اللہ کی ذات کو تسلیم کرنے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو کافر قرار دیا ہے۔