بَلْ بَدَا لَهُم مَّا كَانُوا يُخْفُونَ مِن قَبْلُ ۖ وَلَوْ رُدُّوا لَعَادُوا لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ
بلکہ جو عقائد و اعمال پہلے سے چھپاتے (31) تھے۔ وہ سب اب ان کے سامنے کھل کر آجائیں گے، اور اگر انہیں دنیا کی طرف لوٹا دیا جائے تو پھر دوبارہ وہی کرنے لگیں گے، جس سے انہیں روکا گیا تھا، اور بے شک وہ لوگ پرلے درجہ کے جھوٹے ہیں
[٣٢] یعنی ایسے دلائل جن سے حق واضح ہوتا تھا، ان کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ کوئی ان دلائل کو سن بھی نہ سکے اور ان پر پردہ ہی پڑا رہے۔ وہ حق آج ظاہری صورت میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے تو دوبارہ دنیا میں جانے کی آرزو اور فرماں بردار بن کر رہنے کا جو وعدہ کریں گے وہ وعدہ چونکہ شوق و رغبت کی بنا پر نہ ہوگا بلکہ جہنم کے عذاب کو دیکھ کر اضطراری وعدہ ہوگا اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ کم بخت اب بھی جھوٹ بول رہے ہیں کیونکہ اگر انہیں دنیا میں دوبارہ بھیج بھی دیا جائے تو یہ بدبخت پھر بھی وہی کچھ کریں گے جو پہلے دنیا میں کرتے رہے۔ پھر یہ دنیا کی رنگینیوں میں منہمک ہو کر اللہ کی نافرمانیوں پر اتر آئیں گے اور اپنا وعدہ بھول جائیں گے جیسا کہ بسا اوقات مصائب اور بیماریوں میں پھنس کر انسان اللہ کی طرف رجوع کرتا اور توبہ تائب کرتا ہے مگر اس مصیبت سے نجات پانے کے بعد جب چند دن عیش و آرام میں گزارتا ہے تو اسے یہ یاد ہی نہیں رہتا کہ اس وقت کیا عہد و پیمان کیے تھے؟