وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِم مِّن رَّبِّهِمْ لَأَكَلُوا مِن فَوْقِهِمْ وَمِن تَحْتِ أَرْجُلِهِم ۚ مِّنْهُمْ أُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ ۖ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ سَاءَ مَا يَعْمَلُونَ
اور اگر وہ تورات و انجیل اور اس (قرآن) پر عمل پیرا (92) ہوتے جو ان کے رب کی طرف سے ان کے لیے نازل کیا گیا ہے، تو اپنے اوپر سے اور اپنے پاؤں کے نیچے سے روزی پاتے، ان میں سے ایک جماعت (93) راہ اعتدال پر چلنے والی ہے، اور ان میں سے بہتوں کے کرتوت برے ہیں
[١١١] اچھے اور برے اعمال کے اثرات دل اور فضاؤں پر میں :۔ اگرچہ یہ خطاب بظاہر اہل کتاب کو ہے جس میں یہود و عیسائی مخاطب ہیں تاہم یہ حکم عام ہے یعنی کوئی بھی امت جو کتاب اللہ پر سچے دل سے پوری دیانتداری اور ایمانداری کے ساتھ عمل پیرا ہوگی اس پر اوپر سے ابر رحمت برسے گا، نیچے زمین سے پھل اور میوے بکثرت پیدا ہوں گے۔ ارضی اور سماوی برکات نازل ہوں گی۔ آفات دور ہوں گی۔ سب کو فراخی سے رزق ملے گا۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ حدود اللہ میں سے ایک حد قائم کرنے سے اتنی رحمت اور برکتیں نازل ہوتی ہیں جیسے چالیس دن بارش سے نازل ہوتی ہیں اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری اور نیک اعمال کا ایک نتیجہ تو انسان کے دل پر مرتب ہوتا ہے جس سے اس کا دل سلیم اور مطمئن اور صابر و شاکر بن جاتا ہے اور انہی اعمال کا دوسرا نتیجہ کائنات کی فضاؤں میں مرتب ہوتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی برکتوں اور رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ کی نافرمانی، سرکشی اور کفر کا ایک نتیجہ انسان کے دل پر مرتب ہوتا ہے جس سے ایسے انسان کا دل شقی، سیاہ اور پریشان حال بن جاتا ہے اور دوسرا نتیجہ فضاؤں میں مرتب ہوتا ہے جس سے ایسے لوگوں پر لعنت برستی ہے اور مصائب نازل ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور یہ فضائی اثرات انفرادی طور پر بھی مرتب ہوتے ہیں اور اجتماعی طور پر بھی۔ پھر جب کسی قوم کا ڈول گناہوں سے بھر جاتا ہے تو وہی وقت ہوتا ہے جب ان پر عذاب الٰہی نازل ہوتا ہے۔