وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ ۚ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا ۘ بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ ۚ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم مَّا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَكُفْرًا ۚ وَأَلْقَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۚ كُلَّمَا أَوْقَدُوا نَارًا لِّلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ ۚ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا ۚ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ
اور یہود نے کہا کہ اللہ کا ہاتھ بندھا (87) ہوا ہے، انہی کے ہاتھ (ان کی گردن کے ساتھ) باندھ دئیے گئے ہیں، اور ان کے اس قول کی وجہ سے ان پر لعنت بھیج دی گئی ہے، بلکہ اللہ کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں، وہ جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے، اور آپ پر آپ کے رب کی طرف سے جو چیز نازل کی گئی ہے وہ ان میں سے بہتوں (88) کی سرکشی اور کفر کو بڑھا دیتی ہے، اور ہم نے روز قیامت تک کے لیے ان کے آپس میں دشمنی اور بغض (89) پیدا کردی ہے، جب جب وہ جنگ (90) کی آگ بھڑکانی چاہتے ہیں اللہ اسے بجھا دیتا ہے، ان کا کام زمین میں فساد بھیلانا ہی ہے، اور اللہ فساد برپا کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا
[١٠٥] یہود کا اللہ کو بخیل ہونے کا طعنہ دینا :۔ یہودی حرام خور بھی تھے اور سود خور بھی۔ اور سود خوری کی صفت یہ ہے کہ وہ انسان میں خود غرضی اور بخل پیدا کرتا ہے۔ اور ان میں بخل اس حد تک پہنچ چکا تھا کہ جب انہیں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے یا قرض حسنہ دینے کو کہا جاتا تو طرح طرح کے بکواس شروع کردیتے۔ پہلے سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ١٨١ میں گزر چکا ہے کہ جب ان سے قرض حسنہ دینے کو کہا گیا تو کہنے لگے کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ فقیر ہوگیا ہے اور ہم غنی ہیں تبھی تو وہ ہم سے قرض مانگتا ہے۔ اس آیت میں یہ مذکور ہے کہ جب یہود کی بدکرداریوں کی وجہ سے اللہ کی برکات اور نوازشات بند ہوگئیں تو کہنے لگے کہ اب اللہ بخیل بن گیا ہے جس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ بخیل تو تم خود ہو۔ پھر اوپر سے جو یہ بکواس کرتے ہو یہ تمہارا دوہرا جرم ہے اسی وجہ سے تو تم ملعون ہوئے۔ اللہ کے رویہ میں کچھ فرق نہیں پڑا۔ وہ تو دونوں ہاتھ سے ہر وقت خرچ کر رہا ہے۔ لیکن خرچ وہاں کرتا ہے جہاں چاہتا ہے۔ اس کے خرچ کا مصرف تم جیسے بدکردار لوگ نہیں ہو سکتے۔ چنانچہ : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ کے دونوں ہاتھ بھرے ہوئے ہی رہتے ہیں۔ رات اور دن کا خرچ کرنا اس سے کچھ بھی کم نہیں کرتا۔ بھلا دیکھو۔ آسمان اور زمین کی پیدائش سے لے کر آج تک وہ کتنا خرچ کرچکا ہے لیکن اس خرچ نے جو اس کے ہاتھ میں ہے اسے کم نہیں کیا۔‘‘ (بخاری کتاب التوحید باب قول اللہ (لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ 75) 38۔ ص :75) [١٠٦] قرآن سے گمراہ کون ہوتے ہیں :۔ یعنی جس طرح کسی لاعلاج مریض کو صالح غذائیں بھی راس نہیں آتیں بلکہ بعض دفعہ اس کی بیماری میں اضافہ ہوجاتا ہے اسی طرح ان کی اخلاقی حالت اس قدر پست ہوچکی ہے اور قلبی امراض اس قدر پیچیدہ ہوچکے ہیں کہ انہیں قرآن کی نصیحت آموز باتیں راس نہیں آتیں بلکہ ان کی سرکشی اور کفر میں مزید اضافہ کا باعث بن جاتی ہیں۔ جب قرآن ان کی کسی شرارت پر مسلمانوں کو متنبہ کرتا ہے کہ ان سے ہوشیار رہیں تو وہ ایسی باتوں سے نصیحت قبول کرنے کی بجائے مزید سیخ پا ہو کر پہلے سے بدتر شرارتیں سوچنے لگتے ہیں۔ [١٠٧] یہود اور نصاریٰ دونوں کی آپس میں ایسی دشمنی ہے جو تاقیامت چلتی رہے گی۔ اسی طرح ہر گروہ کے اپنے اپنے فرقوں میں بھی اختلاف، بغض اور عداوتیں ہیں۔ اگرچہ یہ مسلمانوں کے خلاف متحد ہوجاتے ہیں تاہم ان کی آپس کی پھوٹ انہیں کامیاب نہیں ہونے دے گی اور بالآخر مسلمانوں سے مات کھا جائیں گے۔ [١٠٨] شماس یہودی کا فتنہ جنگ بھڑکانا :۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ جب جنگ بدر میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی تو منافقوں کے علاوہ یہود کے بھی تن بدن میں آگ لگ گئی۔ ایک بوڑھے یہودی شماس نے چند یہودی نوجوانوں کو اس بات پر آمادہ کیا کہ جہاں کہیں اوس و خزرج کے لوگ مل کر مجلس جمائے بیٹھے ہوں تو وہاں جا کر جنگ بعاث کے متعلق فریقین کے کہے ہوئے اشعار پڑھنا۔ چنانچہ جب ان کے کسی نوجوان یہودی نے ایسی مجلس میں یہ اشعار پڑھے تو اوس و خزرج دونوں کی قبائلی عصبیت عود کر آئی اور وہ پھر سے بپھر اٹھے اور لڑنے کو تیار ہوگئے۔ لڑائی کا میدان طے پا گیا اور لوگ ہتھیار بند ہو کر وہاں جمع ہونے لگے۔ قریب تھا کہ سب انصار ایک خوفناک جنگ کی زد میں آ جاتے کہ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوگئی۔ آپ فوراً موقع پر پہنچ گئے اور فرمایا۔ ’’میری موجودگی میں ایسی جاہلیت کی باتیں؟‘‘ اس پر انصار چونک اٹھے اور فوراً احساس ہوگیا کہ وہ شیطان کے بہکاوے میں آ گئے تھے۔ پھر وہ آپس میں گلے مل کر رونے لگے اور یہود تو ایسی فتنہ انگیزیوں پر بروقت آمادہ رہتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی ایسی کوششیں بار آور نہ ہونے پاتی تھیں۔ اور اللہ تعالیٰ ان کی لگائی ہوئی آگ کو فوراً بجھا دیتا تھا۔ [١٠٩] یعنی جو کچھ وہ سوچتے ہیں یا کہتے ہیں یا کرتے ہیں سب کچھ فتنہ و فساد برپا کرنے کی غرض سے کرتے ہیں ان کی چند فساد انگیزیاں درج ذیل احادیث میں ملاحظہ فرمائیے : ١۔ یہود کی فتنہ انگیزی زہریلی بکری سے دعوت :۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’جب خیبر فتح ہوا تو آپ کی خدمت میں بکری کا گوشت بطور ہدیہ پیش کیا گیا۔ جس میں زہر ملایا گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ یہاں جتنے یہودی ہیں سب کو جمع کرو۔ جب انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا ’’کیا تم نے اس بکری کے گوشت میں زہر ملایا تھا ؟‘‘ وہ کہنے لگے 'ہاں' آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ’’تمہیں اس کام پر کس بات نے آمادہ کیا ؟‘‘ وہ کہنے لگے ’’ہم چاہتے تھے کہ اگر آپ جھوٹے ہیں تو ہمیں آپ سے نجات مل جائے گی اور اگر آپ سچے نبی ہیں تو زہر آپ کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الطب۔ باب مایذکر فی سم النبی ) ٢۔ یہود کا قتل ناحق اور قسامت :۔ سہل بن ابی حثمہ کہتے ہیں کہ تین آدمی (عبدالرحمن، حویصہ اور محیصہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا : یا رسول اللہ ! ہم خیبر کی طرف گئے تھے وہاں ہم نے اپنے ایک آدمی (عبداللہ بن سہل) کو مقتول پایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بڑی عمر والے کو بات کرنے دو۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کیا تمہارے پاس گواہ ہیں جنہوں نے قاتل کو قتل کرتے دیکھا ہو؟‘‘ انہوں نے کہا ’’گواہ تو کوئی نہیں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’پھر یہودی (پچاس) قسمیں کھائیں گے۔‘‘ وہ کہنے لگے ’’ہم یہود کی قسموں پر راضی نہیں‘‘ اور ابو قلابہ کی روایت میں یہ زیادہ ہے کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کہا ’’تم پچاس آدمی قسمیں کھاتے ہو کہ واقعی ہمارے ساتھی کو یہود نے قتل کیا ہے؟‘‘ انہوں نے کہا ’’ہم تو ایسی قسمیں نہیں کھا سکتے‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو ناپسند کیا کہ عبداللہ بن سہل کا خون رائیگاں جائے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ کے اونٹوں میں سے دیت کے سو اونٹ اس کے وارثوں کو دلوا دیئے۔ (بخاری۔ کتاب الدیات۔ باب القسامۃ) ان احادیث سے بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ یہودی اس قدر فتنہ پرداز تھے کہ پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کو گزند پہنچانے حتیٰ کہ مار ڈالنے میں کس قدر سرگرم اور موقع کی تلاش میں رہتے تھے۔ نیز اپنی بدعہدیوں کی وجہ سے مسلمانوں کی نظروں میں اس قدر ناقابل اعتماد بن چکے تھے کہ مسلمان ان کے پچاس آدمیوں کی قسموں پر بھی اعتبار نہیں کرتے تھے۔