قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ هَلْ تَنقِمُونَ مِنَّا إِلَّا أَنْ آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلُ وَأَنَّ أَكْثَرَكُمْ فَاسِقُونَ
آپ کہہ دیجئے، اے اہل کتاب ! تم ہمارے اندر کون سا عیب (82) پاتے ہو، سوائے اس کے کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس چیز پر جو ہمارے لیے نازل کی گئی، اور یہ کہ تم میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں
[١٠١] چاہئے تو یہ تھا کہ یہود نصاری مسلمانوں سے محبت رکھتے :۔ یہود کو مسلمانوں سے اور پیغمبر اسلام سے اصل میں تو یہ بیر تھا کہ نبی آخر الزماں ان یہود میں سے ہی کیوں مبعوث نہیں ہوا۔ یہ بات وہ علی الاعلان تو کہہ نہیں سکتے تھے اور اس کے بجائے اپنے دل کی جلن اور بھڑاس نکالنے کے لیے پیغمبر اسلام کو طرح طرح سے مطعون کرتے اور انہیں دکھ پہنچاتے رہتے تھے۔ ان کی اصل تکلیف کا بھی اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر جواب دیا ہے کہ نبوت کے تم اجارہ دار نہیں ہو کہ جتنی بھی بدعہدیاں تم کرتے جاؤ نبوت بہرحال تمہارے ہی خاندان میں رہے۔ نبوت تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جسے مناسب سمجھتا ہے دے دیتا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر سے فرماتے ہیں کہ ان یہود سے بھلا پوچھو تو کہ آخر ہم نے تمہارا کیا بگاڑا ہے جو مستقل طور پر ہم سے عداوت پر اتر آئے ہو۔ ہم تو تورات پر بھی ایمان لاتے ہیں اور انجیل پر بھی اور تمام انبیاء پر بھی ایمان لاتے ہیں۔ اس لحاظ سے چاہیے تو یہ تھا کہ ہم تم سے عداوت رکھتے کیونکہ تم نہ قرآن پر ایمان لاتے ہو اور نہ مجھ پر۔ لیکن یہاں معاملہ بالکل برعکس ہے۔