سورة المآئدہ - آیت 58

وَإِذَا نَادَيْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ اتَّخَذُوهَا هُزُوًا وَلَعِبًا ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْقِلُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور جب تم نماز کے لیے بلاتے ہو، تو اس کا مذاق اور تماشہ (81) بناتے ہیں، یہ اس لیے کہ وہ لوگ عقل و خرد سے بے بہرہ ہیں

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٠٠] اذان کا تمسخر اڑانے والے اور ابو محذورہ :۔ اذان مسلمانوں کے شعائر میں سے ایک شعار ہے جس میں یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ اور یہ اعلان ہی دراصل تمام کافروں، خواہ وہ مشرکین ہوں یا یہود و نصاریٰ ہوں سب کے لیے دکھتی رگ تھا۔ کیونکہ مشرکین تو اللہ کے صرف اکیلے الٰہ ہونے کے ہی قائل نہ تھے دوسرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا رسول ماننے کو تیار نہ تھے۔ اس طرح یہود و نصاریٰ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا نبی سمجھنے کو تیار نہ تھے اور یہی کلمات دراصل ان کے اور مسلمانوں کے درمیان باعث نزاع اور موجب جنگ بنے ہوئے تھے پھر دن میں جب پانچ بار بہ بانگ دہل انہیں کلمات کا اعلان کیا جاتا تو سیخ پا ہوجاتے اور اللہ کا، اس کے رسول کا اور مسلمانوں سب کا مذاق اڑاتے اور پھبتیاں کسنے لگتے تھے۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ مدینہ میں ایک عیسائی تھا۔ جب وہ اشھد ان محمد رسول اللہ کے کلمات سنتا تو کہا کرتا۔ ''قَدْ حَرَقَ الکَاذِبُ'' (یعنی جھوٹا جل کر تباہ ہوا) بددعا کے یہ کلمات دراصل اس کے دل کی جلن کا مظہر تھے۔ اب اتفاق کی بات ہے کہ ایک رات ایک لڑکی اس کے گھر میں آگ لے کر آئی۔ وہ خود اور اس کے اہل خانہ سو رہے تھے۔ نادانستہ طور پر وہ آگ کی چنگاری اس کے ہاتھ سے گر گئی جس سے سارا گھر اور گھر والے بھی جل گئے۔ اس طرح اللہ نے اس کی بددعا کو اسی کے حق میں سچ کر دکھایا۔ اس کا قول سچا ہوگیا اور جو جھوٹا تھا واقعی جل گیا۔ نیز ایک اور واقعہ بھی صحیح روایات میں منقول ہے اور وہ یہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حنین سے واپس آ رہے تھے تو راستہ میں سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اذان کہی۔ چند نوجوانوں نے اذان کے کلمات کی ہنسی اڑائی اور اس کی نقل اتارنے لگے۔ ان نوجوانوں میں ابو محذورہ بھی شامل تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنے پاس بلوایا اور اسلام کی دعوت پیش کی۔ ابو محذورہ کے دل میں اللہ نے اسلام ڈال دیا۔ خوش آواز تھے لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مکہ کا مؤذن مقرر فرما دیا۔ اس طرح اللہ کی قدرت سے نقل اصل بن گئی۔ (مسلم، ترمذی، نسائی، احمد، ابو داؤد بحوالہ سبل السلام۔ کتاب الصلٰوۃ۔ باب الاذان عن ابی محذورۃ )