يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ۚ ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
اے ایمان والو ! تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھرجائے گا، تو اللہ تعالیٰ عنقریب ایسے لوگوں (77) کو لائے گا جن سے اللہ محبت کرے گا، اور وہ اللہ سے محبت کریں گے، جو مومنوں کے لیے جھکنے والے اور کافروں کے لیے سخت ہوں گے، اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے، اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے، یہ اللہ تعالیٰ کا انعام ہے، وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے، اور اللہ تعالیٰ بڑی بخشش والا، بڑا علم والا ہے
[٩٦] مرتدین کے متعلق پیشین گوئی :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک بڑی پیشین گوئی فرمائی ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی تو اکثر قبائل عرب نے یہ سمجھا کہ اسلام کو جتنی کامیابیاں اور کامرانیاں نصیب ہوئیں۔ اس کا باعث صرف رسول اللہ کی ذات تھی جن پر وحی کے ذریعہ ہر وقت مسلمانوں کے لیے حالات کے مطابق ہدایات نازل ہوتی رہتی تھیں۔ اب چونکہ آپ انتقال کرچکے ہیں۔ لہٰذا اب پھر کفر کو غلبہ نصیب ہوگا۔ اس خیال سے عرب کے بہت سے قبائل اسلام سے مرتد ہوگئے اور بعض کہنے لگے کہ اب زکوٰۃ ادا کرنے کا اور اسلام کی دوسری پابندیاں سہنے کا کیا فائدہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے فوراً بعد مسلمانوں کو انتہائی نازک اور ہنگامی حالات سے دو چار ہونا پڑا۔ ایک تو مسلمانوں کو آپ کی وفات کا سخت صدمہ تھا دوسرے اسی حالت میں بہت سے قبائل مرتد ہوگئے تھے جن سے جہاد لازمی تھا۔ تیسرے بعض قبیلوں نے زکوٰۃ کی ادائیگی سے سرے سے انکار کردیا تھا حالانکہ اس وقت جہاد کے لیے بہت زیادہ اخراجات کی ضرورت تھی۔ پھر لشکر اسامہ کی روانگی کا مسئلہ بھی تھا جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں ترتیب دے چکے تھے۔ شامی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اس لشکر کی روانگی بھی ضروری تھی گویا مسلمان اس وقت اندرونی اور بیرونی دونوں طرح سے خطرات سے دوچار تھے اور سب سے بڑی مشکل یہ کہ فنڈز بھی موجود نہ تھے ان فتنوں میں سب سے بڑا فتنہ تھا جس کا ذکر اس آیت میں ہوا ہے لہٰذا اس کا ذکر ہم ذرا تفصیل سے کریں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں چند جاہ طلب مدعیان نبوت اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ جن میں سرفہرست مسیلمہ ہے جو یمنی قبیلہ بنو حنیفہ سے تعلق رکھتا تھا۔ اس قبیلہ کا ایک وفد ٩ ھ کو مدینہ آیا۔ اس وفد میں مسیلمہ سمیت سترہ آدمی تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام لائے۔ مگر مسیلمہ جو اس وفد کا سردار تھا، اپنے کبر و نخوت کی وجہ سے کچھ دور دور ہی رہا۔ وہ کہتا تھا کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے بعد مجھے نبوت دینے کا وعدہ کریں تو میں ان کی پیروی کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ثابت بن قیس خطیب انصار کو ساتھ لے کر مسیلمہ کے سر پر جا کھڑے ہوئے۔ مسیلمہ نے اپنی بات کو دہراتے ہوئے کہا کہ اگر آپ چاتے ہیں کہ ہم حکومت کے معاملہ میں آپ کو آزاد چھوڑ دیں تو اپنے بعد اسے آپ ہمارے لیے طے فرما دیجئے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ’’اگر تم مجھ سے اس معاملہ میں یہ چھڑی بھی مانگو تو میں نہیں دینے کا اور یاد رکھو تم اللہ کے فیصلے سے آگے نہیں جا سکتے اور تم نے پیٹھ پھیری تو اللہ تعالیٰ تمہیں توڑ کے رکھ دے گا۔ اور اللہ کی قسم! میں تو تجھے وہی آدمی سمجھتا ہوں جو مجھے خواب میں دکھلایا گیا ہے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سمجھانے کا معاملہ قیس بن ثابت رضی اللہ عنہ کے سپرد کر کے خود واپس چلے آئے۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب وفد بنی حنیفۃ و حدیث ثمامۃ بن اثال ) سب سے پہلے مرتدین مسیلمہ کذاب اور اس کی امت :۔ واپس جا کر مسیلمہ اس معاملہ پر غور کرتا رہا۔ بالآخر اس نے خود نبوت کا دعویٰ کردیا اور کہا کہ مجھے کاروبار نبوت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک کیا گیا ہے اس نے اپنی قوم کے لیے زنا اور شراب کو حلال کردیا تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی شہادت بھی دیتا رہا یعنی اس نے بھی ظلی نبی ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ ان مراعات سے قوم میں اس کی خوب قدر و منزلت ہوئی اور اسے یمامہ کا رحمان کہا جانے لگا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خط لکھا کہ ’’مجھے آپ کے ساتھ اس کام میں شریک کردیا گیا ہے آدھی حکومت ہمارے لیے ہے اور آدھی قریش کے لیے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جواب لکھا کہ ’’زمین اللہ کے لیے ہے جسے چاہتا ہے اسے اس کا وارث بنا دیتا ہے اور انجام متقین کے لیے ہے۔‘‘ پھر مسیلمہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دو قاصد ابن نواحہ اور ابن اثال بھی بھیجے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا تھا ’’کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔‘‘ وہ کہنے لگے ’’ہم گواہی دیتے ہیں کہ مسیلمہ اللہ کا رسول ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا۔ اگر قاصد کو قتل کرنا جائز ہوتا تو میں تم دونوں کو قتل کردیتا۔‘‘ (مسند احمد۔ بحوالہ مشکوٰۃ ج ٢ ص ٣٤٧) یہی مسیلمہ اور اس کو ماننے والوں کی سب سے پہلی مرتدین کی جماعت تھی۔ چنانچہ ربیع الاول ١١ ھ کے آغاز میں ان لوگوں پر فوج کشی کی گئی۔ بنو حنیفہ بڑے جنگجو اور دلیر لوگ تھے وہ بڑی بے جگری سے لڑے اور بڑے گھمسان کا رن پڑا۔ اگرچہ اس جنگ میں، جو جنگ یمامہ کے نام سے مشہور ہوئی، مسلمانوں کے بھی بہت سے قاری شہید ہوئے اور کافی جانی نقصان ہوا تاہم میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا۔ مسیلمہ کذاب خود وحشی بن حرب کے ہاتھوں اپنے کیفر کردار کو پہنچ گیا۔ یہ وہی وحشی بن حرب ہے جس نے جنگ احد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا سیدنا حمزہ کو حربے سے شہید کیا تھا۔ اس جنگ میں اس نے کفارہ کے طور پر اسی حربہ سے مسیلمہ کو قتل کیا۔ (بخاری کتاب المغازی۔ باب غزوہ احد) دوسرا مدعی نبوت اسود عنسی :۔ دوسرا مدعی نبوت اسود عنسی تھا۔ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے ہاتھ میں دو سونے کے کنگن ہیں اس بات سے مجھے فکر لاحق ہوگئی۔ پھر خواب میں ہی مجھے کہا گیا کہ ان پر پھونک مارو۔ میں نے پھونک ماری تو وہ دونوں اڑ گئے۔ اس کی تعبیر یہی ہے کہ میرے بعد دو جھوٹے نبی نکلیں گے ان میں سے ایک اسود عنسی ہے اور دوسرا مسیلمہ کذاب یمامہ والا۔ (بخاری۔ کتاب المناقب باب علامات النبوۃ فی الاسلام) اسود عنسی قبیلہ بنو مدلج کا سردار تھا اسے ذوالحمار بھی کہتے ہیں۔ جادوگر تھا۔ اس نے اطراف یمن پر قبضہ کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمال کو نکال دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اور یمن کے رئیسوں کو اس کی سرکوبی کے لیے لکھا۔ آخر یہ شخص فیروز دیلمی کے ہاتھوں قتل ہوا۔ اس کے قتل کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت دے دی تھی۔ اگرچہ یمن سے یہ خبر دو ماہ بعد آئی تھی۔ تیسرا مرتد قبیلہ بنو اسد تھے جن کے سردار طلیحہ بن خویلد نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ اس پر بھی لشکر کشی کی گئی اور وہ شکست کھا کر ملک شام کی طرف بھاگ گیا۔ بعدہ اس نے پھر سچے دل سے اسلام کو اختیار کرلیا۔ یہ تین قبائل تو وہ تھے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری ایام میں ارتداد اختیار کیا تھا اور ان کی بروقت سرکوبی بھی کردی گئی تھی۔ عہد صدیقی میں مرتد ہونے والے قبائل :۔ سات قبیلے ایسے تھے جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ارتداد اختیار کیا تھا : (١) فزارہ عیینہ ابن حصن کی قوم (٢) غطفان قرۃ بن سلمہ قشیری کی قوم (٣) بنو سلیم۔ فجارہ بن عبدیالیل کی قوم (٤) بنو یربوع مالک بن نویرہ کی قوم (٥) بنو تمیم کے بعض لوگ جو سجاح بنت منذر کے مرید ہوگئے اس عورت نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور مسیلمہ سے نکاح کرلیا تھا (٦) کندہ اشعث بن قیس کی قوم اور (٧) بحرین میں بنو بکر بن وائل، حطم بن زید کی قوم۔ لشکر اسامہ کی روانگی :۔ گویا وفات نبوی کے بعد ہنگامی طور پر مسلمانوں کے لیے تشویش ناک حالات پیدا ہوگئے تھے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ان حالات میں سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے لشکر اسامہ کی روانگی سے متعلق مشورہ کیا تو ایسے نازک حالات میں ساری شوریٰ لشکر اسامہ کی فوری روانگی کے خلاف تھی لیکن سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ساری شوریٰ کے علی الرغم اپنا دو ٹوک فیصلہ ان الفاظ میں فرمایا ’’اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی جان ہے اگر مجھے یہ یقین ہو کہ درندے آ کر مجھے اچک لے جائیں گے تو بھی میں اسامہ کا لشکر ضرور بھیجوں گا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا اور اگر اس بستی میں میں اکیلا ہی رہ جاؤں تب بھی میں یہ لشکر ضرور بھیجوں گا۔‘‘ (طبری ج ٣ ص ٢٢٥) مانعین زکوٰۃ سے جہاد :۔ چنانچہ یہ لشکر بھیجا گیا جو چالیس دن کے بعد ظفریاب ہو کر واپس آ گیا۔ اب مانعین زکوٰۃ کے متعلق سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مہاجرین و انصار کو بلا کر تمام صورت حال ان کے سامنے بیان کر کے ان سے مشورہ طلب کیا تو آپ کی تقریر سے مجمع پر سکتہ طاری ہوگیا۔ طویل خاموشی کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’اے خلیفہ رسول! میری رائے تو یہ ہے کہ آپ اس وقت نماز ادا کرنے کو ہی غنیمت سمجھیں۔ اللہ تعالیٰ اسلام کو قوت دے گا تو پھر ان سے نمٹ لیں گے اس وقت تو ہم میں تمام عرب و عجم کے مقابلہ کی سکت نہیں۔‘‘ اس کے بعد ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے تو انہوں نے بھی سیدنا عمر کی رائے کی تائید کی پھر سیدنا علی نے بھی اسی کی تائید کردی۔ پھر اس کے بعد تمام انصار و مہاجرین اسی رائے کی تائید میں یک زبان ہوگئے۔ آپ نے سیدنا عمر کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا۔ تم کفر کی حالت میں تو بہت جری اور دلیر تھے اب اسلام میں آ کر کمزوری دکھاتے ہو؟ پھر پوری شوریٰ سے خطاب کیا کہ اللہ کی قسم! میں برابر امر الٰہی پر قائم رہوں گا اور اس کی راہ میں جہاد کروں گا۔ جب تک یہ لوگ پوری کی پوری زکوٰۃ ادا نہ کریں جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ادا کرتے تھے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نماز اور زکوٰۃ میں کوئی فرق نہیں کیا اس واقعہ کو امام بخاری نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب آپ کی وفات ہوگئی اور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ بن گئے تو عرب کے کچھ قبائل کافر ہوگئے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا : آپ ان لوگوں سے کیسے لڑیں گے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’مجھے لوگوں سے اس وقت تک لڑنے کا حکم ہے جب تک وہ لا الہ الا اللہ نہ کہیں۔ پھر جس نے یہ شہادت دے دی اس نے اپنا مال اور اپنی جان مجھ سے بچا لیے الا یہ کہ وہ کوئی ایسا کام کرے جس سے اس کے مال یا جان کا نقصان ہو اور اس کے باطن کا حساب اللہ کے ذمہ ہے۔‘‘ اس کے جواب میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا ’’اللہ کی قسم! میں اس شخص سے ضرور لڑوں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرے گا اس لیے کہ زکوٰۃ مال کا حق ہے (جیسے نماز جسم کا) اللہ کی قسم! اگر یہ لوگ مجھے ایک بکری کا بچہ بھی نہ دیں گے جو آپ کو دیا کرتے تھے تو میں ان سے ضرور لڑوں گا۔‘‘ تب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ’’اللہ کی قسم۔ اس کے بعد میں سمجھ گیا کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دل میں جو لڑائی کا ارادہ ہوا ہے یہ اللہ تعالیٰ ہی نے ان کے دل میں ڈالا ہے اور میں پہچان گیا کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی رائے درست ہے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب استتابۃ المعاندین والمرتدین ) چنانچہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ خود جہاد کو روانہ ہونے پر تیار ہوگئے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے انہیں یہ رائے دی کہ آپ کا مدینہ میں موجود رہنا جہاد پر روانہ ہونے سے زیادہ ضروری ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مانعین زکوٰۃ اور مرتدین دونوں کی سرکوبی کے لیے سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو سپہ سالار بنا کر روانہ کیا اور اس وقت تک جہاد کا کام جاری رکھا جب تک کہ مرتدین اور مانعین زکوٰۃ کو راہ راست پر نہیں لے آئے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ اس وقت کے مسلمانوں سے تہدید کے طور پر فرماتا ہے کہ اللہ کے دین کی سربلندی کا انحصار تم پر ہی نہیں۔ اگر تم میں سے کوئی مرتد ہوجائے گا تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو آگے لے آئے گا جن میں یہ اور یہ اوصاف ہوں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری ایام میں اور آپ کی وفات کے بعد جو بے شمار قبائل مرتد ہوگئے تھے ان کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کون سے لوگ لایا تھا اور ان کا سردار کون تھا جس کے ہاتھ پر یہ وعدہ پورا ہوا ؟ اور جو لوگ تاریخ اسلام سے تھوڑے بہت بھی واقف ہیں وہ بے ساختہ کہہ دیں گے کہ ان مرتدوں کے مقابلہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انصار و مہاجرین اور اہل یمن کے لوگ اٹھے تھے۔ جنہوں نے ان سب مرتد لوگوں کی سرکوبی کی تھی اور ان کے سردار اور خلیفہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔ اب اس آیت سے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی اس پیشین گوئی کے پورا ہونے کی تصدیق ہوتی ہے اسی طرح سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت بھی برحق ثابت ہوتی ہے۔ شیعہ حضرات کا نظریہ ارتداد اور اس کا رد :۔ یہ تو تھی فتنہ ارتداد کی تاریخی حیثیت۔ اب شیعہ حضرات یہ کہتے ہیں کہ دراصل مرتدین کی سرکوبی کرنے والے گروہ کے سردار اور اس وعدہ کی تکمیل کے مہتمم سیدنا علی رضی اللہ عنہ تھے اور لوگوں کا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنانا اور ان کا حق تلف کر کے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنا دینا اور سیدہ فاطمہ کو حق باغ فدک نہ دینا ہی اصل ارتداد ہے۔ چونکہ ان لوگوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بجائے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا۔ لہٰذا وہ سب مرتد ہوگئے۔ اگر شیعہ حضرات کے اس نظریہ ارتداد کو درست تسلیم کیا جائے۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنانے کی وجہ سے مرتد ہوگئے تھے تو کیا سیدنا علی نے ان کی سر کو بی کی تھی؟ نیز وہ کونسی قوم تھی جن کے ذریعہ اللہ نے ان مرتدوں کی سرکوبی کر کے اپنے وعدہ کو پورا کیا تھا ؟ نیز یہ کہ کیا اللہ کا یہ وعدہ پورا ہوا بھی تھا یا نہیں؟ یہ سوال ان حضرات کے اس نظریہ کی بھرپور تردید کرتے ہیں۔ بلکہ اس کے برعکس ہوا یہ تھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہمیشہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ و سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی مجلس شوریٰ کے معزز رکن اور ان کے کاموں میں ان کے معاون و مددگار رہے۔ اور مرتدین پر چڑھائی کرنے میں ان کے ساتھ بدل و جان شریک رہے۔ رہا شیعہ حضرات کا یہ احتمال کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ دل سے شریک نہ تھے تو ایک تو یہ بات ﴿وَلَا یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَاۗیِٕم﴾ کے خلاف ہے۔ دوسرے اگر سیدنا علی رضی اللہ عنہ خود بھی ارتداد کا یہی مطلب سمجھتے تھے تو کم از کم یہ تو کرسکتے تھے کہ خود ان کا ساتھ نہ دیتے اور ان کی مدد نہ کرتے۔ تیسرے یہ کہ ان کا آپس میں باہمی رشتوں کا لین دین بھی تاریخ سے ثابت ہے۔ یہ سب باتیں اس بات پر قوی دلیل ہیں کہ ارتداد سے مراد وہ نہیں جو شیعہ حضرات کہتے ہیں اور نہ ہی سیدنا علی نے اسے ارتداد قرار دیا ہے۔ [٩٧] مومنوں کے حق میں نرم دل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی قوت مسلمانوں کو دبانے، ستانے یا نقصان پہنچانے میں صرف نہیں ہوتی بلکہ وہ آپس میں نرم خو، رحم دل اور ایک دوسرے کے ہمدرد ہوتے ہیں اور کافر پر سخت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے ایمان کی پختگی، دیانتداری میں خلوص اور اصول کی مضبوطی سیرت و کردار اور ایمانی فراست مخالفین اسلام کے مقابلہ میں پتھر کی چٹان ثابت ہوتی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ کافروں سے بدمزاجی اور درشتی سے پیش آتے ہیں یا انہیں گالیاں دیتے ہیں یا جب انہیں دیکھتے ہیں تو ان کے چہرہ پر غصہ اور نفرت کے آثار نمایاں ہونے لگتے ہیں۔ مومنوں کا دامن ایسے اخلاق رذیلہ سے پاک ہوتا ہے اور ایسے مومنوں کی چوتھی صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ مخالفین کے طعن و تشنیع، ان کے اعتراضات اور ان کی پھبتیوں کی مطلق پروا نہیں کرتے اور جادہ حق پر پورے عزم و استقلال کے ساتھ گامزن رہتے ہیں۔ [٩٨] ارتداد کے فتنہ کو کچلنے والے :۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ فضل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اس جماعت تک ہی محدود نہیں۔ بلکہ جب بھی کہیں ارتداد کا فتنہ کھڑا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے مرتدین کی سرکوبی کے لیے ایسے جاں نثار اور اسلام کے وفادار مسلمان کھڑے کردیتا ہے جو مرتدین سے علم اور قوت دونوں لحاظ سے بہتر ہوتے ہیں اور اس فتنہ کا زور توڑ کے رکھ دیتے ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ میں ایسے بے شمار فتنے پیدا ہوئے اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے اور اللہ تعالیٰ ان فتنوں کی سرکوبی کے لیے اپنے بندے پیدا کرتا رہا اور آئندہ بھی کرتا رہے گا۔ اور ایسے لوگوں میں بھی مندرجہ بالا صفات کسی نہ کسی درجہ میں ضرور پائی جاتی ہیں۔ اور یہ ارتداد کے فتنے بھی دو طرح کے ہوتے ہیں ایک سیاسی دوسرے تحریری۔ دونوں کا سر کچلنے کے لیے اللہ تعالیٰ مناسب لوگوں کو پیدا کرتا رہا ہے اور کرتا رہے گا۔ اور ان کے لیے بشارت یہ ہے کہ یہ ایسے لوگ اللہ کے محبوب ہوتے ہیں۔