يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ لَا يَحْزُنكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ مِنَ الَّذِينَ قَالُوا آمَنَّا بِأَفْوَاهِهِمْ وَلَمْ تُؤْمِن قُلُوبُهُمْ ۛ وَمِنَ الَّذِينَ هَادُوا ۛ سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ سَمَّاعُونَ لِقَوْمٍ آخَرِينَ لَمْ يَأْتُوكَ ۖ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ مِن بَعْدِ مَوَاضِعِهِ ۖ يَقُولُونَ إِنْ أُوتِيتُمْ هَٰذَا فَخُذُوهُ وَإِن لَّمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوا ۚ وَمَن يُرِدِ اللَّهُ فِتْنَتَهُ فَلَن تَمْلِكَ لَهُ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا ۚ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ لَمْ يُرِدِ اللَّهُ أَن يُطَهِّرَ قُلُوبَهُمْ ۚ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ
اے رسول ! جو لوگ کفر کی طرف دوڑ لگا رہے ہیں، وہ آپ کو غمگین (53) نہ بنا دیں، چاہے وہ ان لوگوں میں سے ہوں جو اپنے منہ سے کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے، اور ان کے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا (54) اور چاہے یہودیوں میں سے ہوں، یہ لوگ جھوٹ (55) بولنے کے لیے دوسروں کی باتیں کان لگا کر سنتے ہیں، اور کچھ ایسے لوگوں کے لیے کان لگاتے (56) ہیں جو آپ کے پاس نہیں آئے، کلام کو اس کی جگہوں سے بدل دیتے ہیں، کہتے ہیں کہ اگر تمہیں یہ حکم (57) دیا جائے تو اسے لے لو، اور اگر یہ نہ دیا جائے تو بچو، اور جسے اللہ گمراہ کرنا چاہے اس کے لیے آپ اللہ کی جانب سے کچھ بھی نہیں کرسکتے، یہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ پاک کرنا نہیں چاہتا، ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے، اور ان کے لیے آخرت میں بڑا عذاب ہے
[٧٤] کفار اور منافقوں کی معاندانہ سرگرمیوں سے آپ کی دل گرفتگی :۔ مکہ میں مسلمانوں اور پیغمبر اسلام کو دکھ پہنچانے والے اور پریشانی میں مبتلا رکھنے والے صرف قریش مکہ تھے مگر مدینہ آ کر آپ کو چار قسم کے لوگوں سے دکھ پہنچ رہا تھا۔ ایک منافقین دوسرے یہود، تیسرے مشرک قبائل عرب اور چوتھے مشرکین مکہ جنہوں نے فتح مکہ تک اپنی معاندانہ سرگرمیوں میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی تاہم اس آیت میں صرف دو قسم کے لوگوں کا ذکر آیا ہے ایک منافقین دوسرے یہود۔ اور ان کی معاندانہ سرگرمیاں بھی طرح طرح کی تھیں۔ مسلمانوں کے دلوں میں طرح طرح کے شکوک پیدا کرنا، مسلمانوں میں ہی فتنہ کی آگ بھڑکانا، لوگوں کو اسلام لانے سے روکنا، مسلمانوں اور پیغمبر اسلام کو بدنام کرنا اور گالی دینا اور جنگ کے وقت مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنا اور جنگ کے دوران کافروں کا ساتھ دینا۔ ایک تو آپ اس بات پر بھی بہت دل گرفتہ رہتے تھے کہ لوگ کیوں اسلام قبول نہیں کرتے۔ اس پر مستزاد یہ معاندانہ سرگرمیاں بھی شامل ہوجاتیں۔ تو آپ سخت پریشان اور دل گرفتہ ہوجاتے تھے اور ایسا ہونا ایک فطری امر تھا۔ آپ کی اسی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے آپ کی تسلی کے لیے یہ ہدایت فرمائی کہ آپ کو ان حالات سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ سب لوگ اللہ کے علم میں ہیں اور یہ اپنے انجام کو پہنچ کے رہیں گے۔ آپ کو صرف اللہ پر ہر وقت نظر رکھنا چاہیے۔ [٧٥] زانی جوڑے کی سزا :۔ اس آیت میں ایک واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ ہوا یہ تھا کہ خیبر کے ایک امیر گھرانے کے ایک شادی شدہ یہودی اور یہودن نے زنا کیا تھا اور وہ چاہتے یہ تھے کہ رجم کی سزا سے بچ جائیں کیونکہ تورات میں ان کی سزا رجم مقرر تھی۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ نبی آخر الزماں کی شریعت میں ایسے زنا کی سزا کوڑے ہے رجم نہیں ہے۔ لہٰذا انہوں نے اس یہودی اور یہودن کا مقدمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں پیش کیا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آپ کا یہود مدینہ سے جو معاہدہ ہوا تھا اس کی رو سے یہودی اس بات میں آزاد تھے کہ اپنے مقدمات اور تنازعات خود ہی تورات کے مطابق فیصلہ کرلیا کریں اور اگر چاہیں تو وہ اپنے مقدمات نبی آخر الزماں کی عدالت میں لے جائیں اس صورت میں آپ کا کیا ہوا فیصلہ ہی ان پر لاگو ہوگا۔ اور یہود یہ مقدمہ اس غرض سے آپ کے پاس لائے تھے کہ یہ امیر زانی جوڑا رجم کی سزا سے بچ جائے اور آپس میں طے یہ کیا کہ اگر یہ نبی کوڑوں کی سزا کا فیصلہ دے تو اس کا فیصلہ تسلیم کرلینا اور اگر رجم کا فیصلہ سنائے تو تسلیم نہ کرنا۔ مسلم کی روایت جو براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور آگے آ رہی ہے یوں ہے کہ یہود نے اس امیر زانی یہودی کو کوڑوں کی سزا دی تھی اور اس کا منہ کالا کر کے اور گدھے پر سوار کر کے گشت کروا رہے تھے تو آپ نے خود ان کو اپنے پاس بلایا۔ اس طرح یہ مقدمہ آپ کی عدالت میں آ گیا۔ [٧٦] یہودی نہ تورات کے متبع تھے نہ نبی کے :۔ فتنہ کا مطلب یہ ہے کہ اصل میں وہ نہ تو رات کی اتباع کرنے پر تیار تھے اور نہ نبی کے فیصلہ کو تسلیم کرنے کو تیار تھے بلکہ اپنے نفس کی خواہش کی پیروی کر رہے تھے۔ کتاب اللہ یعنی تورات کے منکر اس لیے کہ تورات میں رجم کا حکم موجود تھا اور یہ بات وہ خوب جانتے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منکر اس لیے کہ وہ فیصلہ کو مشروط طور پر ماننا چاہتے تھے یعنی اگر وہ ان کی خواہش کے مطابق (یعنی کوڑوں کی سزا) ہوا تو مان لیں گے اور اگر خواہش کے مخالف (یعنی رجم کی سزا) ہوا تو نہ مانیں گے لہٰذا یہ اتباع نہ تورات کی ہوئی اور نہ نبی کی بلکہ ان کی اپنی خواہش کی اتباع ہوئی اور جو شخص خود ہی فتنہ میں پڑا رہنا چاہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے لیے فتنہ کی راہ ہی کھول دیتا ہے اور اللہ کے حکم سے بغاوت کی بنا پر ان کے دلوں کو ایسے خبیث امراض سے پاک نہیں کرتا۔ وہ صرف اس کا دل پاک کرتا ہے جو خود بھی اسے پاک کرنا چاہتا ہے۔