صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ
ان لوگوں کی راہ پر جن پر تو نے انعام کیے، ان کی راہ نہیں جن پر تیرا غضب نازل ہوا، اور نہ ان کی جو گمراہ ہوگئے۔
[١٤] انعام والے اور گمراہ لوگ کون ہیں؟:۔ قرآن کی تصریح کے مطابق ان سے مراد انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں۔ (٤: ٦٩) وہ لوگ نہیں جنہیں مال و دولت یا حشمت و جاہ کی فراوانیاں حاصل ہیں۔ اور آپ کے ارشاد کے مطابق ﴿ مَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ﴾ سے مراد تو یہود ہیں جو گناہ کے کاموں پر دلیر ہوگئے تھے اور ان پر اللہ کا عذاب اور پھٹکار نازل ہوئی اور ضالِّیْن سے مراد عیسائی حضرات ہیں جو فلسفیانہ موشگافیوں میں پھنس کر تثلیث اور گمراہی کا شکار ہوئے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : عدی بن حاتم کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (مدینہ) آیا۔ وہ اس وقت مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے۔ لوگ کہنے لگے کہ یہ عدی بن حاتم ہے جو بغیر کسی کی امان یا تحریر کے آیا ہے۔ چنانچہ مجھے پکڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے۔ آپ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور اس سے پہلے آپ صحابہ رضی اللہ عنہم کو خبر دے چکے تھے کہ میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ عدی کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے دے گا۔ پھر آپ اٹھ کھڑے ہوئے اور میں آپ کے ساتھ تھا (راہ میں) ایک عورت اور اس کا بچہ ملے۔ وہ آپ سے کہنے لگے : ’’ہمیں آپ سے کچھ کام ہے‘‘ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہوگئے اور ان کا کام پورا کردیا۔ پھر آپ نے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے گھر تشریف لائے۔ ایک لڑکی نے آپ کے لئے بچھونا بچھایا۔ آپ اس پر بیٹھ گئے اور میں آپ کے سامنے بیٹھ گیا۔ آپ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر مجھے کہا : ’’وہ کون سی بات ہے جو تمہیں لا الٰہ الا اللہ کہنے سے باز رکھتی ہے، کیا تم اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ جانتے ہو؟“میں نے کہا ”نہیں“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ دیر باتیں کیں پھر پوچھا : ”تمہیں اللہ اکبر کہنے سے کون سی چیز دور رکھتی ہے۔ کیا اللہ سے کسی بڑی چیز کو تم جانتے ہو؟‘‘ میں نے کہا ’’نہیں‘‘ پھر آپ نے فرمایا : ’’یہود پر تو اللہ تعالیٰ کا غصہ ہے اور نصاریٰ گمراہ ہیں‘‘ میں نے کہا کہ میں تو یکطرفہ مسلمان ہوتا ہوں۔ پھر میں نے آپ کے چہرہ پر فرحت و انبساط دیکھی۔ پھر آپ نے میرے بارے میں حکم دیا اور میں ایک انصاری کے ہاں مقیم ہوا۔ اب میں روزانہ صبح و شام آپ کے پاس حاضر ہوا کرتا۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر۔ سورۃ فاتحہ) دور نبوی میں تو واقعی یہی فرقے مغضوب علیھم اور ضالّین تھے۔ مگر آج مسلمانوں کے اکثر فرقے ان میں شامل ہوچکے ہیں اور صراط مستقیم پر تو مسلمانوں کا صرف وہی فرقہ ہے جس کے متعلق آپ نے فرمایا تھا ”مَا اَنَاعَلَیْہِ وَ اَصْحَابِیْ“ (ترمذی، کتاب الایمان۔ باب افتراق ھذہ الامۃ) [١٥] آمین بالجہر کا ثبوت :۔ (1) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جب امام وَلاَالضَّالِیْنَ کہے تو تم آمین کہو۔ جس کا آمین کہنا فرشتوں کے آمین کہنے کے موافق ہوگیا۔ اس کے پہلے گناہ بخش دیئے جائیں گے‘‘(بخاری۔ کتاب التفسیر۔ سورۃ فاتحہ) نیز کتاب الاذان والجماعۃ۔ باب فضل التامین) (2) نیز عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ آمین دعا ہے اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اور ان کے پیچھے مقتدیوں نے اس زور سے آمین کہی کہ مسجد گونج اٹھی۔ (بخاری۔ کتاب الاذان والجماعہ۔ باب جھر الامام بالتامین) (3) وائل بن حجر رضی اللہ عنہ جو عام الوفود یعنی ١٠ھ میں مدینہ تشریف لائے، فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ جب آپ نے نماز میں ﴿غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّیْنَ ﴾ کہا تو اپنی آواز کو خوب لمبا کرکے آمین کہی۔ (ترمذی۔ ابو اب الصلٰوۃ۔ باب ماجاء فی التامین)