يَا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ وَلَا تَرْتَدُّوا عَلَىٰ أَدْبَارِكُمْ فَتَنقَلِبُوا خَاسِرِينَ
اے میری قوم ! تم لوگ اس مقدس سرزمین میں داخل ہوجاؤ جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، اور تم لوگ اپنی پیٹھ پھیر کر نہ بھاگو، ورنہ خسارہ اٹھانے والے بن جاؤ گے
[٥٢] فلسطین کا حال معلوم کرنے والا وفد :۔ جب فرعون بحر قلزم میں غرق ہوگیا اور بنی اسرائیل اس سے پار اتر گئے تو ان لوگوں کی یہ ہجرت ان کے آبائی وطن فلسطین کی طرف بتائی گئی تھی جو سیدنا ابراہیم سیدنا اسحاق اور سیدنا یعقوب علیہم السلام وغیر ہم کی تبلیغ کا مرکز رہا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کو بذریعہ وحی اللہ تعالیٰ نے اطلاع دی تھی کہ ان مہاجرین کو ساتھ لے جا کر فلسطین پر چڑھائی کرو تو بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ فتح دے گا اور اس طرح ان کا آبائی وطن ان کو واپس مل جائے گا۔ چنانچہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے ان کو جہاد کی ترغیب دی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے فتح و نصرت کی بشارت بھی دی مگر ان لوگوں نے یہ سوچا کہ پہلے ہمیں فلسطین کے موجودہ حالات سے پوری طرح واقف ہونا چاہیے تب ہی جنگ کی کوئی بات سوچ سکتے ہیں۔ چنانچہ ان لوگوں نے خود تو دشت فاران میں ڈیرے ڈال دیئے اور اپنے میں سے بارہ آدمیوں کو فلسطین کے سیاسی حالات کا جائزہ لینے کے لیے روانہ کردیا سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے ان لوگوں کو روانہ کرتے وقت یہ تاکید کردی تھی کہ حالات جیسے بھی ہوں آ کر صرف مجھے بتانا۔ ہر کس و ناکس کے سامنے تشہیر نہ کرنا۔