الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۖ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ ۖ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ
آج تمہارے لیے اچھی چیزوں (18) کو حلال کردیا گیا، اور اہل کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے، اور تمہارا کھانا (19) ان کے لیے حلال ہے، اور مومن پاکدامن عورتیں (20) اور ان کی پاکدامن عورتیں (21) جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی (تمہارے لیے حلال کردی گئیں) بشرطیکہ تم عقد زواج کی نیت سے ان کا مہر (22) ادا کرچکے ہو، اعلانیہ زنا، یا پوشیدہ طور پر آشنائی کی نیت نہ ہو، اور جو ایمان (23) لانے سے انکار کرے گا، اس کے اعمال ضائع ہوجائیں گے، اور وہ آخرت میں گھاٹا پانے والوں میں سے ہوگا
[٢٤] اہل کتاب کا کھانا کن شرائط کے تحت حلال ہے؟:۔ اہل کتاب کا کھانا انہی شرائط کے تحت حلال ہے جو اوپر مذکور ہو چکیں۔ یعنی ذبیحہ پر اللہ کا نام لیا گیا ہو، چیز پاکیزہ ہو اور ان کے دسترخوان پر کوئی حرام چیز مثلاً شراب یا سور کا گوشت وغیرہ نہ ہو۔ اور اگر ان کے دسترخوان پر ایسی اشیاء رہتی ہوں تو ان کے ساتھ کھانا تو درکنار ان کے برتن استعمال کرنا بھی جائز نہیں تاآنکہ انہیں خوب دھو کر پاک صاف کرلیا جائے اور یہ استعمال مجبوراً ہو۔ رہے غیر اہل کتاب تو نہ ان کا ذبیحہ کھانا جائز ہے اور نہ ان کے ساتھ کھانا کھانا جائز ہے۔ نیز جو جانور ذبح نہ کیے جائیں بلکہ آرے سے ان کا گلا کاٹ کر الگ کردیا جائے یا کسی اور طریقہ سے انہیں مارا جائے۔ یا ذبح کے وقت اللہ کا نام نہ لیا جائے تو ایسے جانور کا گوشت کھانا جائز نہیں ہے۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ دور نبوی میں یہودیوں اور عیسائیوں کا کم از کم اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان ضرور تھا مگر آج کل اہل مغرب جن میں سے اکثر اپنے آپ کو عیسائی کہلاتے ہیں۔ یہ لوگ نیچری اور دہریہ قسم کے ہوتے ہیں یا دین سے بیزار ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا کھانا کیسے مسلمانوں کے لیے جائز سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ ان میں اور غیر اہل کتاب میں موجودہ دور میں کوئی فرق نہیں ہے۔ [٢٥] کتابیہ عورت کا نکاح :۔ کتابیہ عورتوں سے نکاح کی شرائط وہی ہیں جو مسلمان عورتوں کے لیے ہیں۔ یعنی نکاح کا مقصد محض شہوت رانی نہ ہو بلکہ مستقل بنیادوں پر ہو اور اس نکاح کا باقاعدہ اعلان ہو اور ان کے حق مہر انہیں ادا کردیئے جائیں۔ مگر کتابیہ عورت سے نکاح صرف اس صورت میں جائز ہوگا جب کسی فتنہ کا خطرہ نہ ہو۔ مثلاً ایک شخص اگر کسی خوبصورت کتابیہ عورت سے نکاح کے بعد اس کے دین کی طرف مائل ہوجائے تو ایسی صورت میں نکاح ہرگز جائز نہ ہوگا جیسا کہ اس آیت کے آخر میں الفاظ ﴿وَمَنْ یَّکْفُرْ بالْاِیْمَانِ ﴾ سے ظاہر ہوتا ہے اس خطرہ کے پیش نظر حتی الامکان کتابیہ عورتوں سے نکاح سے بچنا ہی بہتر ہے۔ اور اگر ایسی اضطراری حالت ہو کہ نکاح نہ کرنے سے فتنہ میں پڑنے کا اندیشہ ہو تو پھر نکاح کرلینے میں کوئی حرج نہیں۔