يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ اللَّهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْهَدْيَ وَلَا الْقَلَائِدَ وَلَا آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّن رَّبِّهِمْ وَرِضْوَانًا ۚ وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا ۚ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَن صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَن تَعْتَدُوا ۘ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
اے ایمان والو ! (اللہ کی مقرر کردہ) نشانیوں (4) کو حلال نہ بناؤ، اور نہ حرمت والے مہینے کو، اور نہ قربانی کے اس جانور کو جسے کعبہ کی طرف لے جایا جا رہا ہو، اور نہ ان جانوروں کو جن کی گردن میں پٹے ڈال کر کعبہ کی طرف لے جایا جا رہا ہو، (اور نہ حلال بناؤ) بیت حرام کی طرف آنے والوں کو جن کا مقصد اپنے رب کا فضل اور اس کی خوشنودی حاصل کرنا ہوتا ہے، اور جب تم احرام کھول دو (5) تو شکار کرو، اور کسی قوم کی تم سے دشمنی (6) کہ انہوں نے تمہیں مسجد حرام سے روک دیا تھا، اس پر نہ ابھارے کہ ان پر زیادتی کرو، اور نیکی اور تقوی کے کاموں میں آپس میں تعاون (7) کرو، اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کا ساتھ نہ دو، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ سخت سزا دینے والا ہے
[٦] شعائر کا مفہوم :۔ شعائر، شعیرہ کی جمع ہے۔ یعنی امتیازی علامت۔ ہر مذہب اور ہر نظام کی امتیازی علامات کو شعائر کہا جاتا ہے۔ مثلاً اذان نماز باجماعت اور مساجد مسلمانوں کے، گرجا اور صلیب عیسائیوں کے، تلک، زنار، چوٹی اور مندر ہندوؤں کے کیس۔ کڑا اور کرپان سکھوں کے۔ ہتھوڑا اور درانتی اشتراکیت کے اور سرکاری جھنڈے، قومی ترانے، فوج اور پولیس کے یونیفارم وغیرہ حکومتوں کے امتیازی نشان ہوتے ہیں۔ جن کا احترام ضروری سمجھا جاتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے بھی کئی شعائر ہیں۔ [٧] حرمت کے مہینے :۔ اللہ تعالیٰ کے شعائر بے شمار ہیں جن میں سے چند ایک کے نام اس آیت میں آ گئے ہیں۔ ان کی توہین یا بے حرمتی سے انسان گنہگار ہوجاتا ہے۔ ان میں سے سرفہرست حرمت والے مہینہ کا ذکر فرمایا۔ حرمت والے مہینے چار ہیں۔ ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب۔ اور ان کی حرمت کا مطلب یہ ہے کہ ان مہینوں میں اہل عرب لوٹ مار اور لڑائی وغیرہ سے باز رہتے تھے۔ دور جاہلیت میں پورے عرب میں قبائلی نظام رائج تھا اور یہ قبیلے آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے تھے انہوں نے آپس میں یہ طے کیا ہوا تھا کہ ان مہینوں میں کوئی قبیلہ کسی دوسرے قبیلہ پر چڑھ کر نہ آئے گا۔ دوسرے عرب قبائل ایک دوسرے کو بھی لوٹا کرتے تھے اور تجارتی قافلوں کو بھی۔ ان حرمت والے مہینوں میں وہ اس کام سے بھی باز رہتے تھے اور ان چار مہینوں میں سے ذیقعدہ، ذی الحجہ اور محرم کو حرمت والے مہینے قرار دینے کی وجہ یہ تھی کہ ان ایام میں لوگ دور دور سے حج کرنے آتے تھے اور پھر واپس جاتے تھے اور رجب حرمت والا مہینہ قرار دینے کی وجہ یہ تھی کہ اس مہینہ میں لوگ بیت اللہ کے لیے نذرانے لایا کرتے تھے اور متولیان کعبہ یہ نذرانے وصول کیا کرتے تھے۔ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو یہ سب کچھ کعبہ شریف کے اعزاز کی وجہ سے تھا اور متولیان کعبہ، کعبہ کی وجہ سے کئی قسم کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی فائدے اٹھا رہے تھے اور قریش مکہ کے قافلے تو سارا سال ہی بے خوف و خطر سفر کرسکتے تھے۔ ان کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر دیکھتا بھی نہ تھا۔ اللہ کے شعائر :۔ یہ سب کچھ چونکہ کعبہ کے اعزاز کی وجہ سے تھا اسی لیے اسلام نے اس جاہلی دستور کو بحال رکھا اور اس لیے بھی کہ یہ ایک باہمی معاہدہ امن تھا جسے اسلام پسند کرتا ہے۔ اسلام میں جب زکوٰۃ فرض ہوئی تو اس کی وصولی کے لیے عمال کو ماہ رجب میں روانہ کیا جایا کرتا تھا۔ اس کی وجہ بھی غالباً یہ ہو کہ اس مہینہ میں لوگ کعبہ کے لیے نذرانہ دینے کے پہلے سے عادی تھے۔ دوسرے نمبر پر ہدی کا ذکر فرمایا یعنی وہ قربانی کے جانور جو قربانی کے لیے کعبہ بھیجے جائیں اور تیسرے نمبر پر قلائد کا ذکر فرمایا۔ یہ سب چیزیں اللہ کے شعائر ہیں قلائد سے مراد وہ پٹے ہیں جو کعبہ بھیجے جانے والے قربانی کے جانوروں کے گلے میں ڈال دیئے جاتے تھے ان کے علاوہ تمام مناسک حج بھی شعائر اللہ میں داخل ہیں۔ ان میں سے بالخصوص قربانی کے جانوروں کے ذکر کی مناسبت سے یہاں چند احادیث درج کی جاتی ہیں۔ ١۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قربانی کے اونٹوں کے پٹے بٹے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پٹے اونٹوں کے گلے میں ڈال دیئے اور ان کے کوہانوں سے خون نکالا۔ پھر انہیں بیت اللہ روانہ کردیا۔ (بخاری۔ کتاب المناسک۔ من اشعر وقلد بذی الحلیفۃ ثم احرم۔ مسلم۔ کتاب الحج۔ باب استحباب بعث الھدی الی الحرم ) ٢۔ سیدنا زویب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے ساتھ قربانی کے اونٹ بھیجتے اور فرماتے اگر ان میں سے کوئی اونٹ چل نہ سکے اور اس کے مرنے کا خطرہ ہو تو اسے ذبح کر دو پھر اپنی جوتی اس کے خون میں آلودہ کر کے اس کے پہلو میں مارو۔ پھر اسے نہ تم کھاؤ اور نہ تمہارا کوئی ساتھی کھائے۔ (مسلم۔ کتاب الحج۔ باب مایفعل بالہدی اذاعطب فی الطریق) اور ترمذی میں یہ اضافہ ہے کہ دوسرے لوگ ایسے ذبح شدہ قربانی کے جانور کا گوشت کھا سکتے ہیں۔ (ترمذی۔ ابو اب الحج۔ باب ماجاء اذا عطب بالھدی ) ٣۔ قربانی کے جانور پر سواری کی اجازت :۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جو قربانی کا اونٹ ہانکے جا رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اس پر سوار ہوجا۔‘‘ وہ کہنے لگا ’’یہ قربانی کا جانور ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا 'اس پر سوار ہوجا۔' اس نے پھر کہہ دیا کہ 'یہ تو قربانی کا اونٹ ہے' پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری یا تیسری بار اسے فرمایا ’’تجھ پر افسوس! اس پر سوار ہوجا۔‘‘ (بخاری، کتاب المناسک۔ باب رکوب البدن) (مسلم۔ کتاب الحج۔ باب جواز رکوب البدنۃ المھداۃ) اور مسلم میں یہ الفاظ زیادہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا۔’’معروف طریقہ سے سوار ہو سکتے ہو۔ بشرطیکہ تم سوار ہونے پر مجبور ہو تاآنکہ تمہیں کوئی دوسری سواری مل جائے۔‘‘ (مسلم۔ حوالہ ایضاً) [٨] احرام خود بھی شعائر اللہ میں سے ہے۔ لہٰذا اگر تم انہیں تنگ کرو گے۔ تو شعائر اللہ کی توہین کے مرتکب ہوگے۔ اگرچہ یہاں امر کا صیغہ استعمال ہوا ہے اور امر عموماً وجوب کے لیے آتا ہے لیکن یہاں یہ صیغہ اجازت اور رخصت کے معنوں میں ہے۔ یعنی جب تم احرام کھول دو تو شکار کرسکتے ہو جیسا کہ ترجمہ سے واضح ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جب تم احرام کھولو تو ضرور شکار کرو یا کیا کرو۔ نیز یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ امر کا صیغہ رخصت اور اجازت کے معنی میں بھی آ سکتا ہے۔ [٩] کفار مکہ نے مسلمانوں کو حج و عمرہ اور طواف کعبہ سے روک دیا تھا اور یہ رکاوٹ فتح مکہ تک بدستور قائم رہی ماسوائے عمرہ قضا کے۔ پھر جب کافروں اور مسلمانوں میں کوئی جنگ چھڑتی تو کافر قبیلے کافروں ہی کا ساتھ دیتے تھے۔ اور حدیبیہ کے موقع پر ان تمام شعائر اللہ کی توہین کی تھی جن کا اس آیت میں ذکر ہوا ہے۔ انہوں نے بیت اللہ جانے کی راہ روکی۔ حرمت والے مہینہ میں لڑائی پر آمادہ ہوئے اور قربانی اور پٹے والے جانوروں کی مطلق پروا نہ کی لہٰذا مسلمانوں کے دل میں یہ خیال آ سکتا تھا کہ جو کافر قبیلے قافلوں کی شکل میں حج و عمرہ کرنے جاتے ہیں اور مسلمانوں کے پاس سے گزرتے ہیں وہ بھی مشتعل ہو کر ان کو حج و عمرہ سے روک دیں اور ان کے مال اسباب لوٹ لیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر ایسے خیالات سے بھی منع فرما دیا۔ [١٠] ربط مضمون کے لحاظ سے تو اس جملہ کا یہ مطلب ہے کہ جو کافر حج و عمرہ کو جاتے ہیں۔ اگرچہ وہ کافر اور مشرک ہیں تاہم اس وقت وہ نیکی اور تقویٰ کا کام کرنے جا رہے ہیں تو ان کی زندگی میں نیکی اور تقویٰ کا جو حصہ ہے اس میں تمہیں ان کی راہ روکنے کی بجائے ان سے تعاون کرنا چاہیے۔ حرف فجار اور حلف الفضول میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شمولیت :۔ تاہم اس آیت کا حکم عام ہے یعنی کوئی مسلم ہو یا غیر مسلم اگر وہ نیکی اور تقویٰ کا کام کرتا ہے تو تمہیں اس کا ساتھ دینا چاہیے اور گناہ یا سرکشی کا کام خواہ کوئی مسلمان کر رہا ہو اس سے کسی قسم کا تعاون نہیں کرنا چاہیے چنانچہ آپ کی بعثت سے پہلے کی بات ہے کہ اہل مکہ بری طرح قبائلی خانہ جنگی کی زد میں آ گئے۔ لڑائیوں کے اس لامتناہی سلسلہ نے سینکڑوں گھرانے برباد کردیئے تھے۔ حرب فجار جو قیس اور قریش کے قبیلوں کے درمیان چھڑی تھی اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حصہ لیا اور قریش کا ساتھ دیا تھا تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔ یہ لڑائی حرب فجار کے نام سے اس لیے موسوم ہوئی کہ یہ حرمت والے مہینوں میں بھی جاری رہی۔ اس جنگ کے خاتمہ پر بعض صلح پسند طبیعتوں میں اصلاح کی تحریک پیدا ہوئی۔ قریش کے چند معززین عبداللہ بن جدعان کے گھر جمع ہوئے اور معاہدہ ہوا کہ ’’ہم میں سے ہر شخص مظلوم کی حمایت کرے گا اور کوئی ظالم مکہ میں نہ رہنے دیا جائے گا۔‘‘ اس معاہدہ کو حلف الفضول کہا جاتا ہے اور اس کی وجہ تسمیہ یہ تھی کہ جن لوگوں کو ایسے معاہدہ کا خیال آیا تھا ان کے ناموں میں فضل کا مادہ بطور قدر مشترک شامل تھا۔ اس معاہدہ کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہوسکا کیونکہ اس وقت کوئی ایسی قوت موجود نہ تھی جو قبائلی عصبیتوں کا خاتمہ کرسکتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے عہد نبوت میں فرمایا کرتے تھے ک’’ 'اگر اس معاہدہ کے مقابلہ میں مجھے سرخ اونٹ بھی دیئے جاتے تو میں نہ لیتا۔ اور اگر آج بھی مجھے کوئی ایسے معاہدہ کے لیے بلائے تو میں حاضر ہوں۔‘‘ (سیرۃ النبی۔ ج ١ ص ١٨٤، ١٨٥ شبلی نعمانی)