سورة المآئدہ - آیت 1

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ ۚ أُحِلَّتْ لَكُم بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ غَيْرَ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَأَنتُمْ حُرُمٌ ۗ إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اے ایمان والو, (1) (اللہ سے کیے گئے) اپنے اقراروں کو پورا کرو، تمہارے لیے مویشی چوپایوں (2) کو حلال کردیا گیا ہے، ان کے علاوہ جو تمہیں بتا دئیے جائیں گے (3) لیکن جب تم حالت احرام میں ہو تو شکار کے جانوروں کو اپنے لیے حلال نہ بناؤ، بے شک اللہ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١] ایفائے عہد :۔ قرآن میں کئی مقامات پر یہ صراحت موجود ہے کہ یہود کی بدعہدیوں اور عہد شکنیوں کے باعث ان پر کئی ایسی چیزیں حرام کردی گئی تھیں جو پہلے ان کے لیے حلال تھیں لہٰذا اس سورۃ میں حلت و حرمت کے احکام بیان کرنے سے پیشتر بطور تمہید اپنے معاہدات کو پورا کرنے کی تاکید کی جا رہی ہے خواہ یہ عہد اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے ہوں یا لوگوں سے، بیع و شرا سے متعلق ہوں یا نکاح اور منگنی وغیرہ سے، اپنوں سے تعلق رکھتے ہوں یا غیر مسلموں سے، صلح سے متعلق ہوں یا جنگ سے غرض ہر طرح کے معاہدات کو پورا کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ عہد کو پورا نہ کرنا نفاق کی علامت ہے جیسا کہ پہلے اس ضمن میں صحیح احادیث درج کی جا چکی ہیں۔ [٢] حلال اور حرام جانور :۔ انعام سے اہل عرب کے ہاں اونٹ، گائے اور بھیڑ بکری وغیرہ مراد لیے جاتے ہیں اور بہیمہ وہ جانور ہیں جن کا گزارا گھاس پات پر ہوتا ہو۔ اس طرح اس قبیل میں وہ جانور بھی شامل ہوجاتے ہیں جو نباتاتی غذاؤں پر پرورش پاتے ہوں اور عرب کے علاوہ دوسرے ممالک میں پائے جاتے ہوں مثلاً گائے کے ساتھ نیل گائے، بھینس اور بکری کے ساتھ ہرن اور بارہ سنگھا وغیرہ بھی حلال ہوں گے اور جو جانور حیوانی غذا پر پرورش پاتے ہیں بالفاظ دیگر جو جانور گوشت خور ہیں وہ سب حرام ہیں جنہیں عام زبان میں درندے کہا جاتا ہے چنانچہ سیدنا ثعلبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ہر کچلی والے درندے کے کھانے سے منع فرمایا (بخاری۔ کتاب الصید والذبائح۔ باب اکل کل ذی ناب من السباع۔ مسلم۔ کتاب الصید والذبائح۔ باب تحریم اکل ذی ناب) نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر شکاری پرندے کو حرام قرار دیا جو اپنے پنجوں سے شکار کرتا ہے۔ (حوالہ ایضاً) [٣] یعنی اس سورۃ کی تیسری آیت میں بیان ہوں گے۔ [٤] احرام کیا ہے؟ احرام اس فقیرانہ لباس کو کہتے ہیں جو حج اور عمرہ کرنے والے اپنے میقات سے باندھتے ہیں اور یہ مردوں کے لیے صرف ایک تہبند اور ایک چادر پر مشتمل ہوتا ہے۔ اور عورتوں کے لیے ان کا عام لباس ہی احرام کا بھی لباس ہوتا ہے۔ احرام کی حالت میں انہیں کوئی چیز چہرہ پر نہ ڈالنا چاہیے۔ احرام کی حالت میں چند پابندیاں ضروری ہیں مثلاً وہ خوشبو یا زیب و زینت کی چیزیں استعمال نہیں کرسکتا۔ نہ ہی اپنی بیوی سے صحبت کرسکتا ہے۔ محرم کو شکار کی ممانعت :۔ انہی پابندیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ نہ تو خود شکار کرسکتا ہے اور نہ ہی دوسرے کو شکار کرنے میں مدد دے سکتا ہے البتہ شکار کردہ جانور سے کچھ کھا لینے میں کوئی حرج نہیں۔ چنانچہ سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم (حدیبیہ کے سال) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ روانہ ہوئے اور اپنے چند ساتھیوں سمیت جو احرام باندھے تھے، پیچھے رہ گئے لیکن ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے احرام نہیں باندھا تھا۔ ان احرام باندھے ہوئے ہمراہیوں نے ایک گورخر دیکھا جس پر ابو قتادہ کی نظر نہ پڑی۔ انہوں نے بھی ابو قتاد ہ رضی اللہ عنہ کو شکار کے متعلق کچھ نہ بتلایا، یہاں تک کہ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کی خود اس شکار پر نظر پڑگئی۔ وہ اپنے گھوڑے پر جس کا نام جرادہ تھا سوار ہوئے اور اپنے ساتھیوں سے کہا، ذرا میرا کوڑا مجھے پکڑا دو۔ لیکن انہوں نے انکار کردیا۔ آخر ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے خود اتر کر اپنا کوڑا لیا اور اس گورخر پر حملہ کیا اور اس کو زخمی کر کے اسے گرا دیا۔ پھر ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے اس شکار میں سے خود بھی کھایا اور ان ساتھیوں نے بھی کھایا جو احرام باندھے ہوئے تھے۔ پھر جب یہ لوگ آپ سے جا کر ملے اور ان سے قصہ بیان کیا تو آپ نے پوچھا، کیا اس شکار کا کچھ گوشت باقی ہے؟ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں۔ ایک ران ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ ران لے لی اور اس میں سے گوشت کھایا۔ (بخاری کتاب الجہاد۔ باب اسم الفرس والحمار) پھر جس طرح احرام کی حالت میں شکار کرنا حرام ہے اسی طرح حرم مکہ میں بھی شکار کرنا حرام اور ممنوع ہے فرق صرف یہ ہے کہ حرم مکہ میں کسی وقت بھی شکار نہیں کیا جا سکتا خواہ کوئی احرام کی حالت میں ہو یا نہ ہو۔ جبکہ احرام باندھنے والا احرام کھولنے کے بعد حرم مکہ کے علاوہ دوسرے مقامات سے شکار کرسکتا ہے اور جس طرح احرام کی چند ایک پابندیاں ہیں اسی طرح حرم مکہ کی بھی ہیں۔ ان کی تفصیل کے لیے دیکھئے سورۃ حج کی آیت نمبر ٢٥ کا حاشیہ۔ [٥] حلت وحرمت کے اختیارات :۔ یعنی حلت و حرمت کے یا بالفاظ دیگر قانون سازی کے جملہ اختیارات اللہ ہی کو ہیں۔ لہٰذا جس چیز کو وہ چاہے حلال قرار دے اور جس کو چاہے حرام کر دے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو چند اشیاء کی حلت و حرمت کے احکام دیئے ہیں وہ یا تو اس اختیار کے تحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے احکام دیئے ہیں جو اللہ نے آپ کو بحیثیت اللہ کے رسول تفویض فرمائے یا پھر وحی خفی کے ذریعہ آپ کو مطلع کیا گیا تھا اہل ہنود تین چیزوں خدا، روح اور مادہ کو ازلی ابدی قرار دیتے ہیں۔ روح کو ازلی ابدی تسلیم کرنے کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ تمام ذی حیات یا جاندار اشیاء انسان کے ہم مرتبہ ہیں لہٰذا انسان کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی موذی جانور کو گزند پہنچائے یا اسے مار ڈالے یا اپنے ذاتی فائدے کی خاطر اسے ذبح کر کے اس کا گوشت پوست اپنے استعمال میں لائے۔ وحی الٰہی تو وحدت انسان کا تصور پیش کرتی ہے۔ لیکن اس وحدت کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے انسان کو چار ذاتوں میں تقسیم کر ڈالا۔ اور یہ لوگ وحدت انسان کی بجائے وحدت حیات کا تصور پیش کرتے ہیں۔ موذی جانوروں کو دکھ نہ دینے کا نظریہ چونکہ غیر فطری ہے لہٰذا ان لوگوں نے اس نظریہ میں خاصی لچک پیدا کرلی۔ اور بعض دفعہ ایسے جانوروں کی کثرت کے عذاب سے بھی دو چار ہوئے۔ رہا ان کا یہ اعتراض کہ اسلام مسلمانوں کو بے زبان جانوروں کو اپنے ذاتی مفاد کی خاطر مار ڈالنے کا حکم کیوں دیتا ہے تو اس کا نقلی جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں جو چیز بھی پیدا کی ہے۔ انسان کے فائدہ کے لیے پید اکی ہے اور انسان شریعت کے قوانین کے تحت ان چیزوں سے انتفاع کا حق رکھتا ہے اور یہی بات اس آیت سے واضح ہوتی ہے کہ اللہ جو کچھ چاہے حکم دیتا ہے اور عقلی جواب یہ ہے کہ روح اور جسم کے انفصال کے وقت ہر جاندار کو بہرحال تکلیف پہنچتی ہے۔ ایک جاندار جو طبعی موت مرتا ہے وہ بوڑھا ہو کر اور بیماری کے دکھ سہہ سہہ کر مرتا ہے اور ذبح یا شکار کی صورت میں غالباً اس سے کم عرصہ کے لیے تکلیف پہنچتی ہے۔