سورة النسآء - آیت 173

فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَيُوَفِّيهِمْ أُجُورَهُمْ وَيَزِيدُهُم مِّن فَضْلِهِ ۖ وَأَمَّا الَّذِينَ اسْتَنكَفُوا وَاسْتَكْبَرُوا فَيُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَلَا يَجِدُونَ لَهُم مِّن دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

پس جو لوگ (159) ایمان لائے اور انہوں نے عمل صالح کیا، اللہ انہیں ان کا پورا پورا اجر دے گا، اور اپنے فضل سے انہیں زیادہ دے گا، اور جن لوگوں نے (اس کی عبادت کا) انکار کیا اور تکبر کیا، اللہ انہیں دردناک عذاب دے گا، اور وہ اپنے لیے اللہ کے علاوہ کوئی دوست اور مددگار نہ پائیں گے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢٣٠] تکبر کا انجام :۔ تکبر اور بڑائی صرف اللہ تعالیٰ کو لائق ہے۔ مخلوق میں سے کوئی بھی اللہ کے سامنے اکڑے گا، تو یقیناً دوزخ میں جائے گا۔ عہد آدم علیہ السلام میں سب سے پہلے ابلیس نے تکبر کیا تو راندہ بارگاہ الہی قرار پایا۔ جس شخص میں بھی کبر و نخوت ہو لوگ اسے پسند نہیں کرتے۔ اللہ اسے دنیا میں بھی ذلیل کرتا ہے اور آخرت میں بھی ذلیل کر کے اس کی اکڑ توڑ دے گا اور جہنم میں داخل کرے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ پروردگار کے سامنے جنت اور دوزخ کا جھگڑا ہوا۔ جنت نے کہا ’’پروردگار! میرا تو یہ حال ہے کہ مجھ میں وہی لوگ آ رہے ہیں جو دنیا میں ناتواں اور حقیر تھے۔‘‘ اور دوزخ کہنے لگی ’’کہ مجھ میں وہ لوگ آ رہے ہیں جو متکبر تھے۔‘‘ اللہ نے جنت سے فرمایا تو میری رحمت ہے اور دوزخ سے فرمایا تو میرا عذاب ہے۔ (بخاری، کتاب التوحید، باب ماجاء فی قول اللہ إن رحمۃ اللہ قریب من المحسنین) ـــــــ اور ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کیا میں تمہیں بتاؤں کہ بہشتی کون ہیں اور دوزخی کون؟ جنتی ہر وہ کمزور اور منکسر المزاج ہے کہ اگر وہ اللہ کے بھروسے پر قسم کھا بیٹھے تو اللہ اسے سچا کر دے۔ اور دوزخی ہر موٹا، اجڈ اور متکبر آدمی ہوتا ہے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الایمان، باب قول اللہ تعالیٰ واقسموا باللہ جہد ایمانہم)