قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ
اے میرے نبی ! آپ کہہ دیجیے (١) میں صبح کے رب کی پناہ میں آتا ہوں
[١] فلق کا لغوی مفہوم :۔ فَلَقٌ کے معنی پھٹنا اور الگ ہونا بھی ہے۔ اور پھاڑنا بھی۔ ﴿فَالِقُ الْاِصْبَاحِ ﴾(۹۲:۶) بمعنی صبح کو پھاڑنے اور ظلمت سے الگ کرنے والا۔ اور اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جو رات کی تاریکی سے صبح کی روشنی کو ظاہر کرتا ہے۔ اور حقیقت میں دیکھا جائے تو جو چیز بھی ظہور میں آتی ہے۔ وہ تاریکی اور پردہ غیب سے ہی ظہور میں آتی ہے۔ جیسے اس سے پہلی آیت میں فرمایا : ﴿فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰی ﴾(۹۵:۶)یعنی وہ ذات جو زمین کو پھاڑ کر اس سے دانہ اور گٹھلی کی کونپل نکالنے والا۔ اسی طرح انڈے کا چھلکا توڑ کر چوزے کو باہر نکالنے والا۔ یا رحم مادر سے بچہ کو باہر لانے والا۔ زمین یا پتھر کو پھاڑ کر اس سے چشمے جاری کرنے والا۔ حتیٰ کہ اللہ نے ایک ملے جلے مادے کو ہی پھاڑ کر اس سے آسمان و زمین کو الگ الگ کیا اور انہیں وجود میں لایا تھا۔ اس لحاظ سے فالق اور خالِقٌ تقریباً ہم معنی ہیں۔ [٢] اللہ کے علاوہ دوسرے سے پناہ مانگنا شرک ہے :۔ پناہ اس وقت مانگی جاتی ہے جب انسان کو کوئی ایسا خطرہ درپیش ہو جس کی مدافعت کرنے کی وہ اپنے آپ میں ہمت نہ پاتا ہو۔ اور اس ہستی سے پناہ مانگی جاتی ہے جو نہ صرف یہ کہ پناہ مانگنے والے سے زیادہ طاقتور ہو بلکہ اس چیز سے بھی طاقتور ہو جس سے حملہ یا تکلیف کا خطرہ درپیش ہے۔ اور سب سے زیادہ طاقتور اور ظاہری اسباب کے علاوہ باطنی اسباب پر حکمران اللہ کی ذات ہے۔ لہٰذا پناہ صرف اسی سے مانگنی چاہیے۔ بالخصوص اس صورت میں جبکہ ظاہری اسباب مفقود ہوں۔ ایسی صورت میں اللہ کے علاوہ کسی دوسرے سے پناہ مانگنا شرک ہے جیسا کہ دور جاہلیت میں لوگ جب کسی جنگل میں مقیم ہوتے تو اپنے مزعومہ عقائد کے مطابق وہاں کے جنوں کے بادشاہ سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ ہاں اگر ظاہری اسباب کی بنا پر کسی سے پناہ مانگی جائے تو یہ جائز ہے۔ تاہم بھروسہ صرف اللہ کی ذات پر ہی کرنا چاہیے۔ واضح رہے کہ سورۃ الفلق اور سورۃ الناس دونوں میں مختلف اشیاء سے اللہ کی پناہ مانگنے کا ذکر ہے۔ اور دونوں کا مضمون باہم ملتا جلتا ہے۔ لہٰذا ان دونوں سورتوں کو معوذتین کہا جاتا ہے یعنی وہ سورتیں جنہیں پڑھ کر اپنے پروردگار سے پناہ مانگی جاتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان دونوں سورتوں کو پڑھکر پہلے اپنے ہاتھوں پر پھونکتے پھر ہاتھوں کو جسم کے ہر اس حصے پر پھیرتے تھے جہاں تک ہاتھ پہنچ سکتے تھے۔