إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ
اے میرے نبی ! جب اللہ کی مدد ( ١) آگئی ہے، اور مکہ فتح ہوگیا ہے
[١] فتح مکہ۔ مکہ پر چڑھائی کا سبب اور کیفیت :۔ فتح سے مراد کسی عام معرکہ کی فتح نہیں بلکہ اس سے مراد مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن قریش کا مرکز شہر مکہ ہے۔ تمام قبائل عرب اس بات کے منتظر تھے کہ آیا مسلمان مکہ کو فتح کرسکیں گے یا نہیں؟ اگر کرلیں تو اسلام سچا مذہب ہے ورنہ نہیں۔ ان لوگوں نے اپنے اسلام لانے کو بھی فتح مکہ سے مشروط اور فتح مکہ تک موخر کر رکھا تھا۔ گویا فتح مکہ اسلام اور کفر کے درمیان ایک فیصلہ کن فتح تھی۔ اور خالصتاً اللہ کی مدد سے اور معجزانہ انداز سے واقع ہوئی تھی۔ جس میں مسلمانوں کو معمولی سے معرکہ کی بھی ضرورت پیش نہ آئی۔ مکہ پر چڑھائی کا فوری سبب قریش مکہ کی عہد شکنی تھی جو انہوں نے صلح حدیبیہ کی شرائط کو پس پشت ڈال کر اور اپنے حلیف قبیلہ بنو بکر کی علی الاعلان مدد کرکے کی تھی۔ اور جب بنوخزاعہ کی فریاد پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریش کے سامنے کچھ شرائط پیش کیں تو قریشی نوجوانوں نے انہیں ٹھکرا دیا تھا۔ اسی دوران آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انتہائی خفیہ طریق سے مکہ پر چڑھائی کی تیاری شروع کردی اور اپنے حلیف قبائل کو بھی خفیہ طور پر پیغام بھیج دیا تھا۔ ابوسفیان کی گرفتاری :۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ سے روانہ ہوئے تو لشکر کی تعداد چار ہزار تھی۔ راستہ میں حلیف قبائل ملتے گئے اور مکہ پہنچنے تک دس ہزار کا جرار لشکر آپ کے ہمرکاب تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ کے قریب مرالظہران میں پڑاؤ ڈالا تو اس لشکر کو میلوں میں پھیلا دیا اور حکم دیا کہ آگ کے بڑے بڑے الاؤ روشن کیے جائیں۔ دشمن یہ منظر دیکھ کر اس قدر مرعوب ہوگیا کہ اس میں مقابلہ کی سکت ہی نہ رہی۔ ابو سفیان اپنے دو ساتھیوں سمیت حالات کا جائزہ لینے نکلا ہی تھی کہ گرفتار ہوگیا۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے گھوڑے کے پیچھے بٹھایا تاکہ بلاتاخیر اس کے لیے دربار نبوی سے امان کا پروانہ حاصل کرلیا جائے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو خبر ہوئی تو وہ بھی فوراً دربار نبوی کو روانہ ہوئے تاکہ ابو سفیان کو دربار نبوی میں پہنچنے سے پہلے اور امان ملنے سے پیشتر ہی قتل کردیا جائے۔ اتفاق کی بات کہ سیدنا عباس پہلے پہنچ گئے اور ابو سفیان کی جان بچ گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے معاف کردیا اور سیدنا عباس سے کہا کہ اسے اپنے خیمہ میں لے جائیں۔ آپ کا مسلمانوں کو کفار کے سامنے شان وشوکت کا مظاہرہ کرنے کا حکم :۔ دوسرے دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابو سفیان کو پہاڑی کے ایک بلند مقام پر کھڑا کیا اور اسلامی لشکر، جو قبائل کے لحاظ سے مختلف فوجی دستوں میں بٹا ہوا تھا، کو حکم دیا کہ ابو سفیان کے سامنے پوری شان و شوکت کے ساتھ گزرتے جائیں۔ اس نظارہ نے صرف ابو سفیان پر ہی نہیں، تمام کفار کے دلوں پر اسلام کی ایسی دھاک بٹھا دی کہ مقابلہ کا کسی کو خیال تک نہ آیا اور اس طرح عرب کا یہ مرکزی شہر بلامقابلہ اور بغیر کسی خون خرابہ کے فتح ہوگیا۔ معافی کا اعلان :۔ فتح کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ان جانی دشمنوں کو بڑی فراخدلی کے ساتھ معاف کردیا۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ نہ صرف ابو سفیان اور اس کے اہل خانہ مسلمان ہوگئے بلکہ اہل مکہ کی اکثریت نے اسلام قبول کرلیا۔ کافروں کے دلوں میں اس طرح رعب ڈال دینا اور مکہ کا اس طرح بلامقابلہ فتح ہوجانا بلاشبہ اللہ کی مدد کے بغیر ممکن نہ تھا۔