سورة العاديات - آیت 8

وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور وہ بے شک مال و دولت سے شدید محبت کرتا ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٨] مال ودولت سے انسان کی بے پناہ محبت :۔ تیسری بات جس پر قسم کھائی گئی ہے یہ ہے کہ انسان مال کی محبت میں بری طرح پھنسا ہوا ہے۔ پیسہ ہی اس کا دین و ایمان ہے۔ مال و دولت کے حصول کی خاطر ہی وہ حلال و حرام میں تمیز نہیں کرتا۔ لوگوں سے فریب اور جھگڑے کرتا اور اللہ کی نافرمانی پر اتر آتا ہے اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے میں انتہائی بخیل واقع ہوا ہے۔ مال و دولت سے جس قدر انسان کو محبت ہوتی ہے وہ ہر انسان بذات خود مشاہدہ کرسکتا ہے۔ نیز درج ذیل حدیث بھی اسی بات کی وضاحت کر رہی ہے : سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بحرین (بصرے اور عمان کے درمیان ایک شہر) سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بہت سی رقم آئی۔ اور یہ رقم ان سب رقوم سے زیادہ تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس سے پیشتر آئی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اسے مسجد میں ڈال دو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے لیے تشریف لائے اور اس رقم کو دیکھا تک نہیں۔ نماز سے فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس رقم کے پاس آبیٹھے۔ پھر جس کسی پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر پڑی اسے دینا شروع کیا۔ اتنے میں سیدنا عباس آئے اور کہنے لگے : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! مجھے بھی عطا کیجیے۔ میں نے اپنا بھی فدیہ ادا کیا تھا اور عقیل کا بھی (جنگ بدر میں اور اب زیر بار ہوں) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (جتنا چاہو) لے لو۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ لپیں بھر بھر کر اپنے کپڑے میں ڈالنے لگے۔ پھر اسے اٹھانے لگے تو اٹھا نہ سکے۔ کہنے لگے، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کسی کو حکم دیجیے کہ مجھے اٹھوا دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں (یہ نہیں ہوسکتا) پھر سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کہنے لگے :’’اچھا پھر ذرا خود ہی اٹھوا دیجیے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’ نہیں (یہ بھی نہ ہوگا)‘‘ آخر انہوں نے کچھ درہم نکال دیے۔ پھر اٹھانے لگے تو بھی نہ اٹھا سکے اور کہا : ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کسی کو حکم دیجیے کہ مجھے اٹھوا دے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’یہ نہیں ہوسکتا‘‘ پھر سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ذرا آسرا کیجیے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’نہیں‘‘ پھر انہوں نے مجبوراً اور درہم نکال دیئے اور اپنے کندھے پر لاد کرچل دیے۔ آپ انہیں اس وقت تک دیکھتے رہے جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہ ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا عباس کی حرص پر بہت تعجب کیا۔ غرض آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں سے اس وقت اٹھے جبکہ ایک درہم بھی باقی نہ رہا۔ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ باب القسمۃ فی المسجد)