وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ ۖ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ وَمَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ فِي يَتَامَى النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا تُؤْتُونَهُنَّ مَا كُتِبَ لَهُنَّ وَتَرْغَبُونَ أَن تَنكِحُوهُنَّ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الْوِلْدَانِ وَأَن تَقُومُوا لِلْيَتَامَىٰ بِالْقِسْطِ ۚ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِهِ عَلِيمًا
اور آپ سے لوگ عورتوں کے بارے میں فتوی پوچھتے (123) ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ ان کے بارے میں اللہ تمہیں فتوی دیتا ہے، اور وہ آیتیں فتوی دیتی ہیں جن کی قرآن کریم میں تمہارے لیے تلاوت کی جاتی ہے، ان یتیم بچیوں کے سلسلہ میں جنہیں تم ان کا مقرر شدہ حق نہیں دیتے ہو، اور ان سے نکاح کرنا چاہتے ہو، اور کمزور بچوں کے سلسلہ میں، اور یتیموں کے معاملہ میں عادلانہ رویہ اختیار کرنے کے لیے، اور تم جو بھی بھلائی کرو گے، بے شک اللہ اسے خوب جانتا ہے
[١٦٦] یتیم لڑکیوں سے ناانصافی :۔ یتیم لڑکیوں کے بارے میں جو احکام پہلے سنائے جا چکے ہیں وہ اسی سورۃ نساء کی آیت نمبر ٣ میں مذکور ہیں اور اس آیت کا اس آیت سے گہرا تعلق ہے۔ ہوتا یہ تھا کہ یتیم لڑکیوں کے سرپرست ان سے نکاح کرنے کے سلسلہ میں کئی طرح کی بے انصافیوں کا ارتکاب کرتے تھے جن کی تفصیل اسی سورۃ کی آیت نمبر ٣ کے تحت بیان کی جا چکی ہے۔ ان بے انصافیوں سے بچنے کی خاطر ایسی یتیم لڑکیوں کے سرپرستوں نے یہ محتاط رویہ اختیار کیا کہ ان سے نکاح کرنا ہی چھوڑ دیا تھا تاکہ ان سے ان یتیم لڑکیوں کے حق میں کوئی بے انصافی کی بات سرزد نہ ہوجائے۔ لیکن اس طرح بھی بعض دفعہ نقصان کی صورت پیش آ جاتی تھی اور وہ یہ تھی کہ جس قدر اخوت اور بہتر سلوک انہیں سرپرستوں سے نکاح کرنے میں میسر آ سکتا تھا، غیروں کے ساتھ نکاح کرنے سے وہ میسر آ ہی نہ سکتا تھا اور بعض دفعہ ان کی زندگی تلخ ہوجاتی۔ اس آیت کے ذریعہ اولیاء کو ان کے زیر کفالت یتیم لڑکیوں سے نکاح کی اجازت دے دی گئی مگر اس شرط کے ساتھ کہ ایک تو ان کے حق مہر میں کمی نہ کرو اور دوسرے جو کچھ تم طے کرو وہ ادا ضرور کر دو اور ان کے جو دوسرے حقوق وراثت وغیرہ ہوں، بھی انہیں ادا کر دو۔ اور بعض مفسرین نے اس آیت سے یتیم بچیوں کا وراثت میں حصہ مراد لیا ہے جس کے احکام پہلے اسی سورۃ کی آیت نمبر ١١ میں گزر چکے ہیں۔ دور جاہلیت کا دستور یہ تھا کہ وہ نہ میت کی بیوی کو وراثت سے کچھ حصہ دیتے تھے اور نہ یتیم لڑکیوں کو۔ بلکہ وراثت کے حقدار صرف وہ لڑکے سمجھے جاتے تھے جو لڑائی کرنے اور انتقام لینے کے قابل ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے آیت میراث کی رو سے بیواؤں، یتیم لڑکیوں کے علاوہ چھوٹے بچوں کو بھی وراثت میں حقدار بنا دیا اور اس آیت میں ماکَتَبَ لَھُنَّ کے الفاظ اسی بات پر دلالت کرتے ہیں۔ [١٦٦] یعنی ایسے یتیم بچے جو ان کے ولی کے زیر کفالت ہیں ان کے حقوق بھی انہیں پورے پورے ادا کرو۔ اور کسی طرح سے بھی ان سے ناانصافی نہ کرو، یتیموں سے حسن سلوک کے سلسلہ میں بھی پہلے سورۃ نساء کی ابتدا میں تفصیل گزر چکی ہے۔