سورة القدر - آیت 3

لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

لیلۃ القدر ہزارمہینوں سے بہتر ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢] ہزار مہینے سے بہتر ہونے کے مختلف مفہوم :۔ یہاں ہزار مہینوں سے مراد ہزار مہینے کی معینہ مدت نہیں جس کے تراسی سال اور چار مہینے بنتے ہیں۔ اہل عرب کا قاعدہ تھا کہ جب انہیں بہت زیادہ مقدار یا مدت کا اظہار کرنا مقصود ہوتا تو ہزار یعنی الف کا لفظ استعمال کرتے تھے۔ کیونکہ وہ حساب نہیں جانتے تھے۔ اور ان کے ہاں گنتی کا سب سے بڑا عدد الف یعنی ہزار ہی تھا۔ بلکہ اس سے مراد ایک طویل زمانہ ہے۔ اس وضاحت کے بعد اس آیت کے دو مطلب بیان کیے جاتے ہیں ایک یہ کہ بنی نوع انسان کی خیر و بھلائی کا کام جتنا اس ایک رات میں ہوا (یعنی قرآن نازل ہوا) اتنا کام کسی طویل دور انسانی میں بھی نہیں ہوا تھا اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس ایک رات کی عبادت ایک طویل مدت کی عبادت سے بہتر ہے اور اس مطلب کی تائید درج ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص لیلۃ القدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے قیام کرے اس کے سابقہ گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ (بخاری، کتاب الایمان۔ باب قیام لیلۃ القدر من الایمان) علاوہ ازیں بعض حضرات ہزار مہینے سے مراد ہزار مہینے (یعنی ٨٣ سال اور ٤ ماہ) ہی لیتے ہیں۔ ان کے نزدیک اس ایک رات کی عبادت تراسی سالوں کی عبادت سے بہتر ہے جن میں شب قدر کو شمار نہ کیا جائے۔ لیلۃ القدرسے متعلق ایک سوال کا جواب :۔ یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جس رات مثلاً مکہ معظمہ میں شب قدر ہوگی تو اس وقت زمین کے آدھے حصے پر تو دن ہوگا اور سورج چمک رہا ہوگا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ کے ہاں اصل چیز رات ہے۔ قرآن میں جب کہیں بھی اللہ تعالیٰ نے دن اور رات کا اکٹھا ذکر فرمایا تو رات کا پہلے ذکر فرمایا۔ نیز بعض مقامات پر اللہ نے صرف لیلۃ کا ذکر کرکے اس سے مراد رات اور دن کا عرصہ (یعنی پورے چوبیس گھنٹے) لی ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے تیس راتوں کا وعدہ (تورات دینے کے لئے) کیا تھا۔ تو ان تیس راتوں سے مراد تیس راتیں اور ان کے دن بھی تھے۔ اس لحاظ سے ہر مقام پر رمضان کی وہی مخصوص رات ہی لیلۃ القدر سمجھی جائے گی اور اس رات کا تعین اس خاص مقام پر چاند دیکھنے سے متعلق ہوگا۔