إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ
بے شک ہم نے قرآن کو لیلۃ القدر یعنی باعزت اور خیر و برکت والی رات میں نازل (١) کیا ہے
[١] لیلۃ القدر اور شب قدر یا لیلہ مبارکہ ایک ہی رات کے نام ہیں :۔ اس سورت میں قرآن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے اسے لیلۃ القدر میں نازل کیا۔ اور سورۃ الدخان کی آیت نمبر ٣ میں فرمایا کہ ہم نے اس قرآن کو لیلۃ مبارکہ میں نازل کیا جس سے معلوم ہوا کہ لیلۃ القدر اور لیلۃ مبارکہ ایک ہی رات کی دو صفات یا دو نام ہیں۔ یہ الگ الگ راتیں نہیں ہیں اور لیلۃ القدر ہی کا ترجمہ فارسی میں ''شب قدر'' یا ''شب برات'' ہے۔ گویا شب قدر یا شب برات، لیلۃ القدر سے علیحدہ کوئی رات نہیں۔ جیسا کہ ہمارے یہاں ١٥ شعبان کو شب برات سمجھی بلکہ آتش بازی سے منائی جاتی ہے اور اس نظریہ کا ماخذ چند انتہائی ضعیف روایات ہیں۔ پھر قرآن ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ رات رمضان میں ہے۔ جیسا کہ سورۃ بقرہ میں فرمایا ﴿شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ﴾ اور معتبر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ رات رمضان کے آخری عشرہ میں آتی ہے اور بعض روایات کے مطابق وہ ستائیسویں شب رمضان ہوتی ہے۔ اس سلسلہ میں درج ذیل دو احادیث ملاحظہ فرمائیے : لیلۃ القدرکونسی رات ہے؟:۔ ١۔ عبادہ بن صامت کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے حجرہ سے نکلے۔ آپ لوگوں کو لیلۃ القدر بتانا چاہتے تھے۔ اتنے میں دو مسلمان لڑ پڑے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’میں اس لیے نکلا تھا کہ تمہیں لیلۃ القدر بتاؤں مگر فلاں فلاں لڑ پڑے تو وہ بات (میرے دل سے) اٹھا لی گئی۔ اور اسی میں شاید تمہاری بہتری تھی۔ اب تم اسے (آخری عشرہ) کی ساتویں، نانویں اور پانچویں رات میں تلاش کرو‘‘ (بخاری۔ کتاب الایمان۔ باب خوف المومن ان یحبط عملہ) ٢۔ زر بن حبیش کہتے ہیں کہ میں نے ابی بن کعب سے کہا کہ : ’’تمہارے بھائی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جو شخص سال بھر قیام کرے وہ اس رات کو پا لے گا‘‘ ابی بن کعب کہنے لگے: ’’اللہ تعالیٰ ابو عبدالرحمٰن ( عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی کنیت) کو بخشے وہ خوب جانتے ہیں کہ لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرہ میں ہے۔ اور وہ ستائیسویں رات ہے۔ مگر وہ چاہتے ہیں کہ لوگ اسی پر بھروسہ نہ کر بیٹھیں‘‘ پھر ابی نے بغیر استثناء کے قسم کھائی کہ وہ ستائیسویں رات ہے۔ میں نے پوچھا : ’’ابوالمنذر! (ابی بن کعب کی کنیت) تم کیسے یہ بات کہتے ہو‘‘ انہوں نے کہا : ’’اس نشانی کی بنا پر جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں بتائی اور وہ علامت یہ ہے کہ اس کی صبح کو جب سورج نکلتا ہے تو اس میں شعاع نہیں ہوتی۔‘‘ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن تو بتدریج تیئس سال کے عرصہ میں نازل ہوا تھا۔ مگر یہاں سارا قرآن ایک ہی رات میں نازل ہونے کا ذکر ہے تو اس کا جواب مفسرین دو طرح سے دیتے ہیں ایک یہ کہ اس رات کو سارا قرآن لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر نازل کردیا گیا تھا۔ وہاں سے حسب موقع و ضرورت بتدریج تئیس سال میں نازل کیا جاتا رہا اور دوسرا یہ کہ سارا قرآن اس رات کو حاملان وحی فرشتوں کے حوالے کردیا گیا تھا پھر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق بتدریج نازل کیا جاتا رہا۔