سورة العلق - آیت 18

سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

ہم بھی جہنم کے داروغوں کو بلالیں گے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٢] اس آیت کا سبب نزول درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کعبہ میں) نماز پڑھا کرتے تھے۔ ابو جہل آیا اور کہنے لگا : کیا میں تمہیں اس کام سے منع نہیں کرچکا۔ تین بار اس نے یہ الفاظ دہرائے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوئے تو اسے سخت سست کہا۔ ابو جہل کہنے لگا : یہ تو تم جانتے ہو کہ کسی کے ہم نشین مجھ سے زیادہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ وہ اپنے ہم نشین بلا لے، ہم دوزخ کے فرشتے بلاتے ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! اگر وہ اپنے ہم نشین بلاتا تو اللہ کے فرشتے اسے پکڑ لیتے (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) زبانیہ کا لغوی مفہوم :۔ الزبانیۃ۔ زبانیہ سے مراد بالاتفاق دوزخ کے عذاب دینے والے فرشتے ہیں۔ زبانی العقرب بمعنی بچھو کا ڈنگ۔ اس لحاظ سے ایسے فرشتے مراد ہیں جو سخت دکھ دینے والے اور بے رحم ہونگے۔ نیز زبانیۃ سے مراد پولیس بھی ہے اور یہ قتادۃ کا قول ہے اور زبن کے معنی دھکے دے کر نکال دینا بھی ہے۔ جیسے بادشاہوں اور بڑے لوگوں کے ہاں چوبدار ہوتے ہیں جو اس غرض سے رکھے جاتے ہیں کہ جس سے سرکار ناراض ہو اسے دھکے مار کر نکال دیں۔ مراد یہ ہے کہ ابو جہل اپنی مجلس کے لوگوں کو جس پر اسے بڑا ناز ہے بلاکر دیکھ لے ہم عذاب دینے والے فرشتوں سے ان کی بری طرح گت بنا دیں گے۔