سورة العلق - آیت 9

أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهَىٰ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

کیا آپنے اس شخص کو یکھا جو روکتا ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٩] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیت اللہ میں نماز پڑھنے پرابوجہل کا سیخ پا ہونا اور متعدد بار حملے کرنا :۔ ایک دفعہ ابو جہل نے قریشی سرداروں سے کہا : محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم لوگوں کے سامنے اپنا چہرہ خاک آلود کرتا ہے۔ (یعنی بیت اللہ میں نماز ادا کرنے کے دوران سجدہ کرتا ہے) لوگوں نے کہا :''ہاں'' کہنے لگا : لات و عزیٰ کی قسم! اگر میں نے اسے اب اس حال میں دیکھ لیا تو اس کی گردن روند ڈالوں گا اور اس کا چہرہ مٹی پر رگڑ دوں گا۔ اس کے بعد جب اس نے آپ کو کعبہ میں نماز پڑھتے دیکھا تو اس برے ارادے سے آپ کی طرف بڑھا۔ پھر اچانک پیچھے ہٹنے لگا۔ سرداران قریش نے جب اپنے رئیس کو اس حال میں دیکھا تو حیرانی سے پوچھا :’’ابوالحکم کیا ہوا ؟‘‘ وہ گھبرایا ہوا کہنے لگا : کہ ’’میرے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان ایک خوفناک آگ حائل ہوگئی تھی‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو بتایا کہ ’’اگر وہ میرے قریب آتا تو فرشتے اس کا ایک ایک عضو اچک لیتے‘‘ (بخاری، کتاب التفسیر۔ تفسیر لئن لم ینتہ، نیز مسلم کتاب صفۃ القیامۃ والجنہ والنار) نیز ایک دفعہ ابو جہل اپنے اہل مجلس سے کہنے لگا کہ :’’محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے معبودوں کی تذلیل اور بزرگوں کی توہین کرکے ہمارا ناک میں دم کر رکھا ہے۔ اب میں نے اللہ سے عہد کیا ہے کہ جب اسے نماز میں دیکھوں گا۔ اس کا سر ایک بھاری پتھر سے کچل دوں گا۔ پھر تم خواہ بنو عبدمناف سے میری حفاظت کرو یا مجھے بےیارو مددگار چھوڑو‘‘ اس کے ساتھیوں نے کہا :’’ہم تجھے بےیارو مددگار نہ چھوڑیں گے۔ تم جو کچھ کرنا چاہتے ہو کر گزرو‘‘ چنانچہ جب صبح ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسب ِ دستور نماز ادا کرنے لگے تو وہ اپنے پروگرام کے مطابق ایک بھاری پتھر اٹھا کر آگے بڑھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سجدہ میں جانے کا انتظار کرنے لگا۔ قریب پہنچا ہی تھا کہ پھر پیچھے ہٹنے لگا۔ اس کا رنگ اڑ گیا اور وہ بدحواسی کی وجہ سے اپنے ہاتھ سے پتھر بھی نیچے نہ پھینک سکا۔ اس کے دوستوں نے پوچھا : ’’ابوالحکم! یہ کیا ماجرا ہے؟‘‘ اس کے حواس ٹھکانے آئے تو کہنے لگا :’’ کیا بتاؤں۔ ایک کریہہ المنظر اونٹ آڑے آگیا تھا۔ اس اونٹ جیسی کھوپڑی، اس جیسی گردن اور اس اونٹ کے دانتوں جیسے دانت میں نے آج تک نہیں دیکھے یہ اونٹ مجھے نگل جانا چاہتا تھا‘‘ (ابن ہشام ١: ٢٩٨، ٢٩٩) ایذا پہنچانے والے کافروں کے حق میں آپ کی بد دعا :۔ ایک دفعہ آپ خانہ کعبہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے۔ ابو جہل اور اس کے ساتھی بھی وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ ابو جہل اپنے ساتھیوں کو مخاطب کرکے کہنے لگا : تم میں سے کون ہے جو فلاں شخص کے ہاں ذبح شدہ اونٹنی کا بچہ دان اٹھا لائے۔ اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سجدہ میں جائے تو اس کی پیٹھ پر رکھ دے؟ عقبہ بن ابی معیط جھٹ بول اٹھا کہ ’’یہ کام میں کروں گا‘‘ چنانچہ وہ گیا اور بچہ دان اٹھا لایا۔ پھر جب آپ سجدہ میں گئے تو اسے آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان رکھ دیا۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ’’میں ان کے مقابلہ میں اپنی کمزوری کی وجہ سے کچھ بھی نہ کرسکتا تھا۔ کاش! میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کچھ مدد کرسکتا‘‘ یہ منظر دیکھ کر ابو جہل اور اس کے ساتھی ہنستے ہنستے ایک دوسرے پر گرے پڑتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اتنے بوجھ کی وجہ سے اپنا سر اٹھا بھی نہ سکتے تھے۔ اتنے میں کسی نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہاکو خبر کردی۔ وہ آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گردن سے بچہ دانی کو اٹھا کر پرے پھینک دیا اور انہیں برا بھلا کہنے لگیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سجدہ سے سر اٹھایا پھر تین بار فرمایا :''اللھم علیک بقریش'' (اے اللہ ان قریشیوں سے تو خود نمٹ لے) یہ کلمات سن کر وہ لوگ سہم گئے۔ کیونکہ انہیں اس بات کا خطرہ لاحق ہوگیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بددعا رنگ لاکے رہے گی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مجمع کے چھ آدمیوں کے نام لے کر انہیں بددعا دی اور فرمایا :’’یا اللہ! ابو جہل سے نمٹ لے، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن امیہ، امیہ بن خلف اور عتبہ بن ابی معیط سے نمٹ لے۔‘‘سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’اس اللہ کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ یہ سب لوگ بدر کی لڑائی میں مارے گئے اور بدر کے کنوئیں میں پھینکے گئے تھے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الجہاد والسیر۔ باب دعاء النبی علی المشرکین)