وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَىٰ
اور اس نے آپ کو فقیر و محتاج پایا تو آپ کو مالدار بنا دیا
[٧] آپ کا بچپن :۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد ماجد نے میراث میں صرف ایک اونٹنی اور ایک لونڈی چھوڑی تھی۔ آپ کی رضاعت کا مسئلہ سامنے آیا تو سب دائیوں نے آپ کی رضاعت سے اس بنا پر انکار کردیا کہ آپ یتیم ہیں۔ والد موجود نہیں گھرانہ بھی اتنا مالدار نہیں تو یہاں سے کیا ملے گا۔ آخر یہ سعادت حلیمہ سعدیہ کے ہاتھ آئی اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضاعت کو اس لیے قبول کرلیا کہ کسی امیر گھرانے کا بچہ انہیں ملا ہی نہیں تھا اور انہوں نے یہ سمجھ کر رضاعت قبول کی کہ کچھ ہونا بہرحال نہ ہونے سے بہتر ہے۔ آٹھ سال کی عمر کو پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا عبدالمطلب فوت ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے چچا ابو طالب کی کفالت میں آگئے۔ ابو طالب خود عیالدار اور مفلس تھے۔ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چند قیراط کی مزدوری پر مکہ والوں کی بکریاں بھی چرائی تھیں اور جو معاوضہ ملتا وہ ابو طالب کے حوالہ کردیتے۔ ذرا بڑے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شام کے تجارتی سفروں میں حصہ لینے لگے۔ حسن معاملت کی بنا پر انہی ایام میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت، امانت اور دیانت کا چرچا ہوگیا۔ اس پر مکہ کی ایک بیوہ اور مالدار خاتون نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مضاربت کی بنا پر اچھی خاصی رقم دے دی۔ واپس آئے تو سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے غلام زید بن حارثہ نے، جو شریک سفر تھے آپ کی امانت، دیانت کی انتہائی تعریف کی۔ جس سے متاثر ہو کر سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے خود نکاح کی پیش کش کی۔ یہ خاتون مالدار بھی تھیں، حسین بھی تھیں۔ لہٰذا معززین مکہ کی طرف سے ان کو کئی بار نکاح کے پیغام آئے لیکن آپ سب کو رد کرتی رہیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انہوں نے خود نکاح کا پیغام بھیج دیا جسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبول کرلیا اور ٢٥ سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک چالیس سالہ بیوہ خاتون سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ شادی ہوگئی۔ نکاح کے بعد سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنا سارا مال و دولت اور غلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تحویل میں دے دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چند دنوں تو تجارت کی مگر جلدی ہی یہ سارا مال اللہ کی راہ میں محتاجوں، بیواؤں، بے روزگاروں اور ضرورتمندوں کو دے دیا کیونکہ آپ طبعاً امیری کی بجائے فقر کو پسند کرتے تھے اور یہی غنا کی سب سے بہترین قسم ہے کہ مالدار ہونے کے باوجود انسان فقر کو ترجیح دے۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے اموال غنائم میں پانچواں حصہ مقرر کردیا اور اموال فے سارے کے سارے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تحویل میں دے دیے۔ مگر اتنے مال و دولت اور حکومت کے باوجود آپ سارا مال و دولت تقسیم کردیتے تھے۔ بقدر کفاف اپنی گھریلو ضرورتوں کے لیے رکھ لیتے تھے اور ساری زندگی دولت پر فقر کو ترجیح دی۔ اس آیت میں آپ کی ابتدائی مفلسی اور اس کے بعد آپ کے اسی قسم کے غنا کا ذکر ہے۔