وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَىٰ
اور (اللہ کی طرف سے) اچھے بدلے پر یقین رکھا
[٢] یعنی لوگوں کے اعمال اور ان کے نتائج جو ایک دوسرے سے متضاد اور مختلف ہیں۔ ان میں سے ایک گروہ کے اعمال یہ ہیں کہ : ١۔ وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتا رہا۔ ٢۔ اس نے اپنی ساری زندگی اللہ سے ڈرتے ہوئے اور اس کی فرمانبرداری میں گزار دی اور ٣۔ ہر بھلی بات کی تصدیق کی۔ بھلی بات سے مراد ایمان بالغیب بھی ہے۔ اللہ کی آیات بھی ہیں۔ اللہ کی توحید بھی، رسول کی تصدیق بھی اور اخلاق فاضلہ کی بجا آوری بھی۔ گویا ان تین مختصر سے الفاظ میں پوری شریعت کا خلاصہ پیش فرما دیا کہ جو شخص یہ اور یہ کام کرے گا اللہ اس کے لیے احکام شریعت پر چلنا' اور جنت میں داخلہ کا مستحق ہونا آسان بنا دیتا ہے۔ اسے نیکی کے کاموں کی توفیق دیتا ہے حتیٰ کہ بدی کی راہ پر چلنا اس کے لیے دشوار ہوجاتا ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسی راہ کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ البلد کی آیت نمبر ١١ میں گھاٹی کی دشوار گزار راہ قرار دیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ راہ چونکہ خواہشات نفسانی کے مخالف ہے۔ اس لیے ابتدائ ً یہ فی الواقع انسان کی طبیعت پر بوجھ اور دشوار گزار راستہ معلوم ہوتا ہے لیکن جب عزم صمیم کے ساتھ اس راستہ پر گامزن ہوجاتا ہے تو یہی راستہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے آسان بنا دیتا ہے بلکہ اسے یہی راہ آسان معلوم ہونے لگتی ہے جس کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس کے لیے رزق حلال اور کسب حلال کے دروازے کھلتے جاتے ہیں اور حرام کی کمائی کا حصول اسے سخت ناگوار محسوس ہونے لگتا ہے۔ یہ ایک فریق کا حال ہے۔