سورة الأعلى - آیت 3

وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدَىٰ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور جس نے ہر چیز کا اندازہ لگایا، پھر رہنمائی کی

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣] تقدیر بمعنی اندازہ کرنا۔ بنانے سے پہلے کسی چیز کا مکمل نقشہ، اس کی شکل و صورت، اس کے مقاصد اور غرض و غایت کے متعلق پوری سکیم تیار کرنا۔ پھر اس کے متعلق یہ طے کرنا کہ اس چیز کے لیے کس قسم کا مواد درکار ہے۔ کتنی مقدار میں درکار ہے۔ اس چیز میں کیا کیا خصوصیات درکار ہیں۔ تاکہ جس مقصد کے لیے وہ بنائی گئی ہے اسے بطریق احسن انجام دے سکے۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق سے پیشتر اس کی تقدیر بنائی ہے۔ کائنات میں آج تک جو اشیا وجود میں آچکی ہیں اور جو کچھ بعد میں پیدا ہوں گی سب کچھ اللہ کی اس تقدیر یا اندازے یا اسکیم کے مطابق ہو رہا ہے جو اس نے پہلے سے طے کر رکھا ہے۔ [٤] یعنی جس چیز کو جس مقصد کے لیے بنایا، اس چیز کی فطرت میں وہ کام کرنے کا طریقہ بھی ودیعت کردیا۔ مثلاً ہر دودھ پلانے والے جاندار کا بچہ پیدا ہوتا ہے تو پیدا ہوتے ہی وہ ماں کی چھاتیوں کی طرف لپکتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس بچے کو دودھ چوسنے کا طریقہ فطرتاً سکھا دیا۔ اسی طرح کائنات کی ایک ایک چیز کو وہ راہ سجھا دی جس کے لیے وہ پیدا کی گئی ہے۔ مثلاً اللہ نے دل کو اس لیے پیدا کیا کہ وہ سارے جسم میں خون کو پہنچائے تو دل کی ساخت بھی ایسی ہی بنائی اور اسے یہ طریقہ بھی بتلا دیا کہ وہ کس طرح خون کو پمپ کرے گا۔ کسی جاندار کے ارادہ اور خواہش کے بغیر دل از خود ہی یہ کام کیے جاتا ہے۔ حتیٰ کہ کسی کو یہ محسوس بھی نہیں ہوتا کہ اس کے اندر کیا کیا چیزیں ہیں اور وہ کیا کیا کام سرانجام دے رہی ہیں۔ انسان چونکہ دوسری تمام مخلوق سے ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے اس کو دو قسم کی ہدایت دی گئی ہے۔ ایک اضطراری جو اس کی طبعی زندگی سے تعلق رکھتی ہے۔ اور اس لحاظ سے وہ دوسرے جاندار سے مختلف نہیں اور دوسری ہدایت اختیاری ہے جو اس کے عقل و شعور اور اخلاقیات سے تعلق رکھتی ہے۔ اسی دوسری قسم کی ہدایت کو اجاگر کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء بھیجے اور کتابیں نازل فرمائیں۔