الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ
وہ جب لوگوں سے ناپ کرلیتے ہیں تو پورا لیتے ہیں
[٢] ڈنڈی مارنے کی مختلف صورتیں :۔ ناپ کر اپنا حق پورا لینا کوئی جرم کی بات نہیں۔ یہ جرم صرف اس وقت بنتا ہے جب اپنا حق تو پورا لیا جائے اور دوسروں کو کم دیا جائے۔ پھر اس جرم میں کمی بیشی کی کئی صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی اپنا حق بھی کم لے اور دوسروں کو بھی کم دے۔ بالفاظ دیگر اس کا پیمانہ یا باٹ ہی چھوٹاہو اسی سے وہ لاتا بھی ہو اور دیتا بھی ہو اور ڈنڈی بھی نہ مارتا ہو۔ اس صورت میں بھی یہ جرم ہے مگر جرم کی شدت کم ہوجاتی ہے۔ دوسری یہ کہ آدمی لیتے وقت پورا یا زیادہ لے اور دیتے وقت کم دے۔ اس صورت میں جرم دگنا بلکہ تگنا ہوجاتا ہے۔ لین دین کی اصل بنیاد عدل ہے یعنی پورا پورا دو۔ اور قرآن کریم میں بے شمار مقامات پر اس کی سخت تاکید آئی ہے کہ جب تولو تو سیدھی ڈنڈی سے تولو اور اور کسی کو اس کا حق کم نہ دو۔ پورا یا زیادہ لینا اور دوسروں کو کم دینا اتنا بڑا جرم ہے جس کی وجہ سے سیدنا شعیب علیہ السلام کی قوم پر عذاب نازل ہوا تھا۔ اسلام نے مسلمانوں کو عدل سے بھی اگلے درجہ یعنی احسان یا ایثار کی ہدایت فرمائی ہے اور وہ یہ ہے کہ آدمی اپنا حق لیتے وقت تھوڑے سے کم پر اکتفا کرلے اور دیتے وقت تھوڑا سا زیادہ دے دے۔ چنانچہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی منڈی میں تشریف لے گئے۔ ایک تولا غلہ تول رہا تھا اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی کہ ”زِن وارجح“ (نسائی، کتاب البیوع) یعنی تول اور تھوڑا سا جھکتا تول۔ غور فرمائیے جس معاشرہ میں ایسا دستور رواج پا جائے اس میں کوئی لین دین کا تنازعہ پیدا ہوسکتا ہے؟ جھکتا تولنے کی ہدایت :۔ اور جو شخص جھکتا تول کر دے رہا ہے اسے جب اس کا حق ملے گا تو وہ بھی جھکتا ہی ملے گا۔ اور اسے بھی کوئی کسر نہ رہے گی پھر ایسے معاشرہ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور برکتوں کا جو نزول ہوگا اس کا اندازہ تجربہ سے ہی کیا جاسکتا ہے۔